بلوچستان میں اب تک کتنے پنجابی شہریوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے؟

پچھلے کچھ عرصے سے بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل کے واقعات میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے، ایک تازہ واقعے میں 20 جون کے روز بلوچستان کے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سے 50 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع ہرنائی میں واقع پکنک پوائنٹ شعبان سے 10 پنجابی سیاحوں کو اغواء کر لیا گیا جن کا تاحال کا سُراغ نہیں لگایا جا سکا۔

لیولز حکام کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کو نامعلوم افراد پہاڑ سے اترے اور سیاحوں کو یرغمال بنا لیا، جس کے بعد ان سیاحوں کے شناختی کارڈز چیک کیے اور 14 افراد کو اپنے ساتھ لے گئے، تاہم واردات کے مقام سے کچھ فاصلے پر مارکیٹ کے پہاڑی سلسلے میں 4 افراد کو اتار دیا اور 10 سیاحوں کو اپنے ہمراہ لے گئے۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اغوا ہونے والے 10 افراد میں ایک کسٹم اہلکار شامل ہے, جبکہ 4 افراد کا تعلق کوئٹہ اور 2 کا تعلق ملتان سے بتایا گیا ہے, جو رشتے میں ایک دوسرے کے کزن ہیں۔

خیال رہے کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر شر پسند تنظیم کی جانب سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ رواں برس کالعدم تنظیم کی جانب سے 3 حملے اور ایک اغوا کی واردات کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 18 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

رواں برس پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو دہشت گردی کا نشانہ سب سے پہلے 12 اپریل کو بنایا گیا۔ جب نامعلوم افراد نے بلوچستان کے علاقے نوشکی میں قومی شاہراہ پر ناقہ لگا کر مسافر بسوں کو روکا اور شناختی کارڈ دیکھ کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 افراد کو اغوا کیا اور بعدازاں انہیں فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ قتل ہونے والوں میں زیادہ کر کا تعلق منڈی بہاؤالدین سے تھا

بات تب ہوگی جب عمران خان اور کارکنان باہر آئیں گے، عمر ایوب

 

دہشت گردی کا دوسرا واقعہ 28 اپریل کو بلوچستان کے ضلع کیچ میں رونما ہوا، جب نامعلوم افراد نے ایک گھر میں تعمیراتی کام کرنے والے 2 مزدوروں کو گولیاں مار کر قتل کردیا اور فرار ہوگئے۔ مقتولین کی شناخت محمد شاہد ولد محمد صدیق اور نعیم احمد ولد محمد حنیف کے نام سے ہوئی، جن کا تعلق پنجاب کے ضلع فیصل آباد سے بتایا گیا تھا۔

روان برس 9مئی کو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں نامعلوم افراد نے ایک بار پھر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا۔ پولیس کے مطابق مسلح افراد نے ایک گھر میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں وہاں موجود 7 مزدور ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا۔ قتل ہونے والے مزدوروں کا تعلق خانیوال سے تھا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق 26 اگست 2006 کو فوجی آپریشن کے دوران نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچ علیحدگی پسند تنظیم کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جس میں پنجابی زبان بولنے والے افراد کو نشانہ بنائے جانے لگا۔ٹارگٹ کلنگ کے مختلف واقع میں مزدور طبقے کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا جن میں دیہاڑی دار، نائی دھوبی اور درزی شامل تھے۔ 2007 سے 2013 تک شرپسندی کے مختلف واقعات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم گزشتہ برس سے ایک بار پھر کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے

Back to top button