کپتان کے دوست انیل مسرت کی شہباز کے حق میں گواہی

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر اور قریبی دوست برطانوی بزنس مین انیل مسرت نے لندن میں جائیدادیں خریدنے کے لیے شہباز شریف کی مدد کی تھی اور یہ بھی تسلیم کیا کہ سابق وزیر اعلی پنجاب لین دین کے معاملات میں ایک قابل بھروسہ انسان ہیں۔
یاد رہے کہ نیشنل کرائم ایجنسی نے سابق مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر کی سربراہی میں کام کرنے والے نیب کے ایسٹس ریکوری یونٹ کی اس شکایت کے بعد شہباز شریف اور سلیمان شہباز کے اثاثوں بارے تحقیقات کی تھیں کہ شریفس پاکستانی حکام کو اس بات پر مطمئن کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ لندن میں 2005 سے خریدی گئی جائیدادوں کیلئے فنڈز کہاں سے آئے۔
مسرت کا نام اُس فائل میں کئی مقامات پر موجود ہے جس میں شہباز شریف کے ساتھ ان کے کاروبار کا معاملہ درج ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا برسراقتدار آنے کے بعد سے مسلسل یہی موقف رہا ہے کہ شہباز شریف کے خلاف کرپشن کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ تاہم اب ان کے قریبی ساتھی انیل مسرت نے شہباز شریف کے حق میں گواہی دے دی ہے۔
خیال رہے کہ انیل مسرت کو عمران خان کے دوست ہونے کے علاوہ ان کے اے ٹی ایم کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ برطانوی تاجر انیل مسرت عمران خان کا سب سے بڑا اے ٹی ایم ہے۔ تاہم برطانیہ میں بزنس کرنے والے انیل مسرت کا موقف تھا کہ انکا واحد مقصد اپنے ملک پاکستان کے لیے کام کرنا اور وزیر اعظم عمران خان کو 5 ملین ڈالر کے ہاؤسنگ منصوبے پر مفت مشورہ دینا ہے۔
برطانیہ میں مقیم سینئر صحافی مرتضی علی شاہ کی ایک رپورٹ کے مطابق شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلیمان شہباز کے متعلق نیشنل کرائم ایجنسی کی منی لانڈرنگ انوسٹی گیشن کے حوالے سے عدالتی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی مالی مدد کرنے والے ڈونر اور عمران کے دوست انیل مسرت نے لندن میں جائیداد خریدنے کے لیے شہباز کی مدد کی تھی اور انہیں ایک دیانتدار شخص قرار دیا تھا۔
شہباز اور سلیمان کے وکیل نے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو بتایا کہ مسرت نے 2005ء میں لندن کے علاقے تھرٹی اپر برکلی اسٹریٹ میں فلیٹ نمبر دو خریدنے میں ان کے موکل کی مدد کی۔ این سی اے کو یہ بھی بتایا گیا مسرت نے شریف خاندان کیلئے یہ پراپرٹی ایک نیلامی کے دوران خریدی تھی اور ادائیگی بھی کی کیونکہ اس وقت آکشن پراپرٹی کے حوالے سے سخت مالی ضابطے نافذ تھے۔
5وزراء ٹکٹ کی یقین دہانی پرحکومت کو چھوڑنے پر تیار ہیں
شریف فیملی کے وکیل نے این سی اے کو مزید بتایا کہ انیل مسرت نے اپریل 2005ء میں شہباز شریف کے اکائونٹ میں 2 لاکھ 35 ہزار پائونڈز جمع کرائے اور ساتھ ہی انہیں 59؍ ہزار 993؍ پائونڈز کا قرضہ بھی دیا۔ 13 جون 2005ء کو شہباز شریف کی بھتیجی اسما ڈار نے ایک کاروبار کے ذریعے متحدہ عرب امارات سے 59؍ ہزار 993؍ پائونڈز کی ادائیگی کی۔
این سی اے کو یہ بھی بتایا گیا کہ آدھی ادائیگی کے طور پر انیل مسرت کے لیٹنگ اکائونٹ میں 60؍ ہزار پائونڈز جمع کرائے گئے۔ وکیل نے این سی اے کو بتایا کہ 2؍ جون 2005ء کو شریف کو بارکلیز سے ایک لاکھ 60؍ ہزار پائونڈز ملے جس میں سے ایک لاکھ 55؍ ہزار سات پائونڈز انیل مسرت کو ادا کیے گئے۔ اس ضمن میں ثبوت بھی جمع کرائے گئے ہیں۔
انیل مسرت نے 2007ء میں شہباز شریف کیلئے رچ بورڈ کورٹ ایجویئر روڈ پر ایک فلیٹ کی خریداری کیلئے 40؍ ہزار پائونڈز کی رقم ادا کی۔یہ گھر فی الوقت سلیمان اور ان کے اہل خانہ کے زیر استعمال ہے۔ 2009ء میں انیل مسرت نے شہباز کو 2؍ لاکھ 30؍ ہزار پائونڈز دیے تاکہ وہ لندن کے کینری وہارف ایریا میں فلیٹ خرید سکیں۔
شریف کے وکیل نے این سی اے کو ثبوت بھی پیش کیے جس میں واضح ہے کہ تینوں قرضے انیل مسرت کو بروقت واپس کیے گئے تھے۔ وکلاء نے این سی اے کو بتایا کہ مسٹر مسرت کاروباری شخصیت ہیں اور ان کے پاس بہت زیادہ دولت ہے جو انہوں نے پراپرٹی کے کاروبار سے کمائی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ وہ شہباز شریف فیملی کے دوست ہیں اور 2005ء میں انہوں نے اپر برکلی اسٹریٹ میں خریداری کیلئے شریف فیملی کی مدد کی تھی۔
یاد رہے کہ برطانیہ کے صنعتی شہر مانچسٹر کے ورکنگ کلاس علاقے لانگ سائٹ میں پیدا ہونے والے 50 سالہ انیل مسرت کا شمار برطانیہ کے امیر ترین ایشیائی باشندوں میں ہوتا ہے۔ کرکٹ اور فلم ان کے بچپن کے شوق ہیں اور عمران خان ان کا کرکٹر ہیرو ہے۔ 30 سال گزرنے کے باوجود انیل اب بھی عمران خان کی شخصیت کے مداح ہیں۔
وہ دل و جان سے عمران خان کی کامیابی چاہتے ہیں اسی لیے وہ کپتان کے 50 لاکھ گھر بنانے کے منصوبے پر ان کی حکومت کی رہنمائی بھی کر رہے ہیں۔ عمران سے وابستگی، اُنکی الیکشن مہم کی فنڈنگ اور پھر نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ پر رہنمائی کی وجہ سے انیل مسرت پاکستانی سیاست میں متنازغ کردار بن کر سامنے آئے ہیں چونکہ لوگ ان سے زیادہ واقف بھی نہیں اسی لیے پراسراریت کا ایک ہالہ بھی ان کے گرد قائم ہے۔