اس کے دن پورے ہو چکے, اب یہ نشان عبرت بننے والا ہے

اُس کے اقتدار کے دن گنے جا چکے۔ وہ عبرت کی ایک مثال بننے والا ہے لیکن آج بھی اُس قابلِ نفرت شخص کو ایسے بہت سے لوگوں کی حمایت حاصل ہے جو سیاسی مخالفین سے نفرت اور گالم گلوچ پر فخر کرتے ہیں کیونکہ اُن کے لیڈر نے اُنہیں صرف جھوٹ بولنا اور نفرت کرنا سکھایا ہے حالانکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور نفرت کی آگ دوسروں کے علاوہ خود کو جلا دیتی ہے. آپ یقینا سمجھ چکے ہوں گے کہ یہاں نفرت کی سیاست کرنے والے کس شخص کی بات ہو رہی ہے. جی ہاں, آپ درست سمجھے. اپنے خلاف مواخذے کی کارروائی کی منظوری کے بعد گھمنڈی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بہت رسوا ہو کر وائٹ ہائوس سے نکلنے والا ہے۔

سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدار میں امریکا کو جتنا رسوا کیا اُتنا تو امریکا کے بڑے بڑے دشمن بھی اُسے نہ کر سکے۔ اقتدار کے آخری دنوں میں موصوف نے صدارتی الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے حامیوں کے ذریعہ جلائو گھیرائو شروع کر دیا جس پر اُن کی اپنی ہی ری پبلکن پارٹی کے بہت سے اہم لیڈر اُن کی مذمت کر رہے ہیں۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ فی الحال دنیا کی توجہ اُس نقصان پر ہے جو ٹرمپ نے امریکا کو پہنچایا لیکن جب خبطِ عظمت کا شکار یہ شخص وائٹ ہائوس سے نکلے گا تو آہستہ آہستہ دنیا کو پتہ چلے گا کہ ٹرمپ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں کیا کیا تباہیاں مچائیں اور پاکستان پر ٹرمپ کی پالیسیوں کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

ٹرمپ نے پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لئے پاکستان کے بارے میں جو زبان استعمال کی، وہ اِس سے قبل صرف اور صرف ہندوستانی سیاستدانوں نے پاکستان کے بارے میں استعمال کی تھی۔ ٹرمپ کے دور میں امریکی اور ہندوستانی حکومت کا پاکستان کے بارے میں بیانیہ ایک ہو گیا۔ ٹرمپ نے یکم جنوری 2018کو ایک ٹویٹ کے ذریعے پاکستان کے بارے میں کہا کہ امریکا نے پچھلے پندرہ سال میں پاکستان کو 33ارب ڈالر کی امداد دی اور جواب میں پاکستان نے ہمارے ساتھ جھوٹ بولا اور ہمیں دھوکہ دیا۔ ٹرمپ نے اسی ٹویٹ میں کہا کہ افغانستان میں ہم جن دہشت گردوں کا پیچھا کرتے رہے، پاکستان میں اُن دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔ ٹرمپ کی یہ ٹویٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کرنے والے ہزاروں پاکستانی شہیدوں کی توہین کے مترادف تھی۔
ٹرمپ نے اِس خطے میں پاکستان کی طرف سے امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ادا کئے گئے کردار کو بھی فراموش کر دیا اور اِس رائے کو تقویت دی کہ امریکا ایک ناقابلِ اعتبار دوست ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ امریکا دنیا بھر میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا چمپیئن بنا پھرتا ہے لیکن پاکستان میں امریکا نے ہمیشہ فوجی آمروں کی حمایت کی۔ اور فوجی آمروں نے امریکا کے لئے وہ خدمات سرانجام دیں جو کوئی باضمیر سیاستدان سرانجام نہیں دے سکتا۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر ایوب خان نے امریکا کو پاکستان میں فوجی اڈے دیے جہاں سے روس کی جاسوسی ہوتی تھی اور یوں روس کو ہم نے اپنا دشمن بنا لیا۔ ایوب خان نے امریکا کے تین سرکاری دورے کئے اور اُن کے دور میں دو امریکی صدور نے پاکستان کا دورہ کیا۔ آئزن ہاور 1959میں اور لنڈن جانسن 1967میں پاکستان آئے۔ 1969میں امریکی صدر رچرڈ نکسن پاکستان آئے اور یحییٰ خان نے چین کے ساتھ امریکا کا سفارتی ڈیڈ لاک ختم کرایا۔

حامد میر کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا ایٹمی پروگرام آگے بڑھانے کی پاداش میں امریکی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا جو بالآخر ان کی پھانسی پر منتج ہوئیں.
دوسری طرف بھٹو حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قابض ہونے والے ضیاء الحق کے دور میں پاکستان نے افغانستان میں امریکی مفادات کی جنگ لڑی اور سی آئی اے کے ساتھ مل کر ایک سپر پاور سوویت یونین کو کمزور کیا. لیکن آخر میں ضیاء الحق بھی امریکی سازش کا نشانہ بنے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ امریکا کے سب سے زیادہ دورے پرویز مشرف نے کئے۔ اس نے نو سالہ دور اقتدار میں امریکا کے نو سرکاری دورے کئے۔ مشرف دور میں صدر بل کلنٹن نے 2000 اور جارج ڈبلیو بش نے 2006 میں پاکستان کا دورہ کیا کیونکہ ایک دفعہ پھر پاکستان نے امریکا کو فوجی اڈے اور کئی دیگر سروسز بغیر چارجز کے فراہم کیں۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ محترمہ بےنظیر بھٹو دو مرتبہ اور نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے، دونوں وزرائے اعظم نے کوئی ایک ٹرم بھی مکمل نہ کی۔ دونوں کے دور میں کوئی ایک امریکی صدر بھی.پاکستان نہیں آیا لیکن جب بھی فوجی آمر پاکستان پر قابض ہوئے, امریکی صدر نے پاکستان کے دورے کئے.

حامد میر کے مطابق صدر ٹرمپ کے دور میں مقبوضہ جموں و کشمیر اور مقبوضہ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم ہوا اُس کی مثال نہیں ملتی۔ اب ٹرمپ خود ایک عبرت کی مثال بننے والا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ٹرمپ کے جانے کے بعد کشمیر اور فلسطین پر امریکا کی پالیسی بدل جائے گی۔ پاکستان کے حکمرانوں کو امریکا کی بجائے صرف پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنا چاہئے اور ان حکمرانوں کے انجام سے سبق سیکھنا چاہئے جو امریکی مفادات کی جنگ لڑتے لڑتے عبرت کی مثال بن گئے۔ بھگوڑے مشرف کی مثال آپ کے سامنے ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button