پیمرا کی پابندی عمران خان کو الطاف حسین بنانے کا آغاز

پیمرا کی جانب سے تحریک انصاف کے سربراہ کی تقاریر کو براہ راست نشر کرنے پر پابندی لگا کر عمران خان کو بھی الطاف حسین بنانے کا عمل باقاعدہ شروع ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ الطاف حسین اور عمران خان دونوں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لگائے ہوئے پودے ہیں اور دونوں پر اسٹیبلشمنٹ کا کلہاڑا تب گرا جب انہوں نے اپنی تخلیق کاروں کو للکارنا شروع کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پابندی لگنے کے بعد پہلے ہی روز 21 اگست کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ہونے والا عمران خان کا جلسہ براہ راست تو کیا کسی ٹی وی چینل نے بعد میں بھی نہیں دکھایا کیونکہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ کا رگڑا نکالا تھا اور الزام لگایا تھا کہ فوج انہیں الیکشن کمیشن کے ذریعے نااہل کروانے جا رہی ہے۔ لہٰذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستانی مین سٹریم میڈیا نے ایک طرح سے عمران کی راولپنڈی والی تقریر کا بلیک آؤٹ کیا۔ اس کے علاوہ عمران خان کی لیاقت باغ میں کی گئی تقریر کو پی ٹی آئی نے یوٹیوب پر بھی بلاک کر دیا تھا۔ یعنی اب موصوف کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جارہا ہے جو ماضی میں الطاف حسین کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔ الطاف حسین کو اب بھی پاکستانی ٹی وی چینلز پر نہیں دکھایا جاسکتا۔ ماضی میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض پر تنقید کرنے کی پاداش میں پیمرا نے نواز شریف کی تقاریر نشر کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی لیکن بڑے میاں صاحب اپنے بھائی کی حکومت بننے کے بعد دو مرتبہ ٹی وی چینلز پر براہ راست بولتے دکھائی دے چکے ہیں۔
پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے عمران کی تقاریر کو اظہار رائے کی آزادی کے آئینی حق سے تجاوز قرار دے کر انہیں براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔ پیمرا نوٹیفکیشن کے مطابق ’عمران خان کی تقاریر پر پابندی پیمرا آرڈیننس 2002 کے سیکشن 27 کے تحت لگائی گئی ہے۔ عمران کی ایف نائن پارک اسلام آباد میں تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔ ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف ان کے بیانات آرٹیکل 19 کی بھی خلاف ورزی ہیں۔ عمران نے اپنے خطاب میں ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف ایکشن کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ اسلام آباد کے آئی جی، ڈی آئی جی اور ریمانڈ دینے والی اس خاتون ’مجسٹریٹ‘ پر کیس کریں گے۔ لہذا ان کی براہ راست تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔
پیمرا کی جانب سے عائد کردہ پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف صحافی زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’پیمرا کے پاس قانون کے مطابق قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور ان پر پابندی عائد کرنے کا اختیار بھی موجود ہے لیکن پاکستان میں اس کا اطلاق سلیکٹیو‘ ہوتا ہے۔ پیمرا صرف ان کے خلاف کارروائی کرتا اور پابندی عائد کرتا ہے جو حکومت سے باہر ہوتے ہیں۔ ایسی پابندیوں کا نقصان بظاہر یہ ہوتا ہے کہ سیاسی رہنما براہ راست اپنی بات عوام تک نہیں پہنچا سکتے۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی رہنما بھی بعض اوقات طے شدہ حدود سے آگے نکل جاتے ہیں جس طرح عمران نے دھمکیاں لگائیں لیکن پیمرا کو پابندی کا اطلاق کرتے وقت بہت سے عناصر کو سامنے رکھنا چاہیے کیونکہ پابندیاں بحرحال کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں۔ نواز شریف، مولانا فضل الرحمان، مریم نواز پر پابندیاں لگانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوا تو عمران پر بھی پابندی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس فیصلے کے قانونی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور الطاف حسین پر عائد کی گئی پابندیوں کے پیچھے عدالتی فیصلے تھے جبکہ عمران کی تقاریر کو نفرت پر مبنی قرار دے کر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں پیمرا نے جو پھرتی دکھائی ہے اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ اگر یہ معاملہ عدالت میں گیا اور چیلنج ہوا تو پیمرا کے لیے دفاع کرنا مشکل ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ عمران کی تقاریر پر پابندی عائد کرنے سے قبل پیمرا کو چاہیے تھا کہ وہ تمام ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کرتا تاکہ وہ اس حوالے سے اپنا نکتہ نظر بھی بیان کرتے جس کے بعد فیصلہ کیا جاتا۔ لیکن حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان اپنے فوج مخالف بیانیے میں ریڈ لائن کراس کر چکے ہیں اس لیے پابندی کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں تھا۔
وقت آ گیا ہے کہ عمران خان اپنی متبادل قیادت تیار کریں
لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پیمرا نے کسی سیاسی رہنما کی تقاریر پر کوئی پابندی عائد کی ہو۔ اس سے قبل پاکستان کے تین مرتبہ کے منتخب وزیرِاعظم نواز شریف، متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور کئی دیگر سیاسی رہنماؤں کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی رہی یا انھیں سینسر شپ کا سامنا رہا ہے۔ نواز شریف کے اپنے دور حکومت میں بھی بعض وزراء کی تقاریر بلکہ شکلیں بھی ٹی وی پر دکھانے کی غیر اعلانیہ پابندی رہی ہے۔ ستمبر 2020 میں جب اپوزیشن جماعتوں نے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا تو اس وقت کی حکومت نے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کا خطاب رکوانے کی کوششیں کی لیکن تمام چینلز نے نواز شریف کا لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے کیا گیا خطاب نشر کیا۔ جس کے بعد اکتوبر میں پیمرا نے اشتہاری ملزمان کا خطاب میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی۔
خیال رہے کہ پیمرا اس سے قبل مشرف، جو کہ اشتہاری مجرم تھا جبکہ طاہرالقادری اور عمران خان جو اشتہاری ملزمان تھے، ان کی تقاریر پر پابندی کی درخواست عدالت نے اظہار رائے کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دی تھی۔ پیمرا کی جانب سے اشتہاری ملزمان کی تقاریر پر پابندی کے بعد نواز شریف کے ساتھ ساتھ لندن میں مقیم سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ 2018 میں بھی لاہور ہائی کورٹ نے جب پیمرا کو حکم دیا کہ وہ عدلیہ مخالف تقاریر روکے تو اسے صرف نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر پابندی کہا گیا۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے بعد ازاں اس حکم نامے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا حکم نامہ پیمرا کے لیے تھا، کسی سیاسی جماعت کے لیے نہیں تھا لیکن اس دوران نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر اگر نشر ہوتی تھیں تو ان کو سینسر کیا جاتا تھا۔
اس سے قبل ستمبر 2015 میں جب ملک میں نواز شریف کی حکومت تھی، متحدہ کے بانی نے لندن سے ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان مخالف ریمارکس دیے جس کے بعد شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔لاہور ہائی کورٹ میں ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر ہوئی۔ جس کی سماعت کے دوران عدالت نے پیمرا کو متحدہ کے بانی کی تقریر نشر کرنے پر پابند عائد کرنے کا خصوصی نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیا۔ اگلی سماعت میں پیمرا نے جب نوٹیفکیشن پیش کیا تو عدالت نے اسے عمومی نوٹیفکیشن قرار دے کر برہمی کا ظہار کیا اور کہا کہ ایسا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے کہ جس کے تحت پاکستانی نیوز چینلز کی سکرین پر متحدہ کے بانی کی آواز اور تصویر دونوں دکھانے اور سنانے پر پابندی ہو۔یہ پابندی صرف الیکٹرونک میڈیا پر ہی نہیں پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات پر بھی عائد کی گئی جس کے بعد گزشتہ سات سال سے متحدہ کے بانی پاکستانی میڈیا کے ذریعے اپنا کوئی پیغام اپنے ورکرز تک پہنچانے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی تقاریر کو مین سٹریم میڈیا پر نشر ہونے سے روکے جانے کے بعد ان کا بیانیہ عوام تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا چونکہ 21 اگست کو ان کی راولپنڈی لیاقت باغ میں کی گئی تقریر کو بھی پی ٹی آئی نے یوٹیوب پر بلاک کر دیا تھا۔