پارلیمان کو عزت دیں تاکہ وہ ہمارے فیصلوں پر عمل کریں، چیف جسٹس

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان کو عزت دیں تاکہ وہ ہمارے فیصلوں پر عمل کریں، قانون اچھا یا برا ہونے پر بحث ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ کیس کی سماعت کر رہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے روسٹم پر آکر اپنے دلائل میں کہا کہ تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں آپ سب باتیں دہرائیں گے نہیں ہائی لائٹ کریں گے۔
انہوں نے دلائل میں کہا کہ سب سے پہلے ماسٹر آف روسٹر کے نکتہ پر دلائل دوں گا، 1956 کے رولز پر بھی عدالت میں دلائل دوں گا، اختیارات کی تقسیم اور پارلیمان کے ماسٹر آف روسٹر کے اختیار لینے پر دلائل دوں گا، فل کورٹ کی تشکیل اور اپیل کے حق سے محروم کرنے کے حوالے سے بھی دلائل دوں گا اور جو کہا جا چکا اس کو نہیں دہراؤں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 14,20,22,28 میں دیے گئے حقوق قانون کے مشروط ہیں، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے اور آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمان سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا، جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی اور اس میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کا حق قانون سازی ختم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے عدلیہ کی آزادی دی ہے مگر اپنا حق قانون سازی بھی ختم نہیں کیا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ 1973 سے پہلے رولز بنانے کا اختیار گورنر جنرل یا صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط تھا، آرٹیکل 8 کہتا ہے ایسی قانون سازی نہیں ہوسکتی جو بنیادی حقوق واپس لے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 قانون بنانے کا اختیار دیتا ہے، صرف عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل سوال ہی عدلیہ کی آزادی کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایاکہ قانون کا ایک حصہ ایکٹ آف پارلیمنٹ دوسرا عدالتی فیصلے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں ہے، اس نکتے پر تفصیلی دلائل پیش کروں گا، آرٹیکل 191 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے پابندی نہیں لگتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین میں لفظ لاء 200 سے زیادہ بار آیا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں جہاں بھی یہ لفظ لکھا وہ ایک تناظر میں دیکھا جائے گا، یہ ’’ون سائز فٹ آل‘‘ والا معاملہ نہیں ہے، جہاں بھی یہ لفظ لکھا ہے اس کی نوعیت الگ ہے۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 191میں پھر سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹوشن اینڈ لا کیوں ہے؟ یہ پھر صرف سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹیوشن کیوں نہیں رکھا گیا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 191 میں صرف لاء کا لفظ نہیں، یہ سبجیکٹ ٹولاء لکھا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عمومی حالات میں صوبے وفاق سے متعلقہ امور پر قانون سازی نہیں کر سکتے، معاملہ اگر صوبے کے عوام کے حقوق اور ہائی کورٹ کا ہو تو کیا ہوگا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 میں واضح ہے کہ ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد قانون میں مقرر ہوگی، آرٹیکل 191 میں کہیں نہیں لکھا کہ قانون بنے گا اور اسکے تحت رولز بنیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا ہے، پارلیمان نے آئین کو جاندار کتاب کے طور پر بنایا ہے کہ جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین ساز یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز تب تک بنائے جب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو جاتی، آئین سازوں کی نیت سے کہیں واضح نہیں ہے کہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز بدل سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے بھی قانون ہوں گے؟ عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اگر ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رول قانون ہیں تو سپریم کورٹ کے کیوں نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ رولز قانون ہوتے ہیں لیکن یہ آرٹیکل 191 میں استعمال شدہ لفظ قانون نہیں کہلائیں گے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اس حساب سے تو سپریم کورٹ 1980 میں کہہ سکتی تھی کہ کوئی قانون نہیں ہے تو ہم رولز نہیں بنا سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ اپنے حساب سے دلائل دیتے تو شاید اتنا مسئلہ نہیں ہوتا، بعض اوقات ہاں یا نہ میں جواب دینا ممکن نہیں ہوتا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق رولز عام طور پر قانون ہوتے ہیں تو عدالت لفظ قانون کی تشریح کس اصول پر کرے گی؟ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ رولز بننے کے بعد آرٹیکل 191 میں موجود لفظ قانون غیرموثر ہوگیا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے موجودہ کیس آرٹیکل 191 کا ہے تو تشریح اُس کے تناظر میں ہی ہوگی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون کی جتنی مرضی اقسام ہوں ایکٹ آف پارلیمنٹ آگیا تو بات ختم۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اگر رولز بھی قانون ہیں اور ایکٹ آف پارلیمنٹ بھی تو کیا یہ دو قوانین میں ٹکراؤ نہیں ہوگا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمان یہ قانون بنائے کہ جیل اپیلیں دائر ہوتے ہی مقرر ہونگی تو یہ سپریم کورٹ رولز سے بالا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین پر عمل درآمد کے لیے ہی رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ رولز بننے کے بعد ایکٹ آف پارلیمنٹ کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ اگر سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی اتھارٹی نہیں دینی تھی تو آرٹیکل 191 کا مقصد ہی کیا ہے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ قانون سازی کا اصل مقصد آرٹیکل 184/3 تھا، جو مسئلہ تھا اسے ٹھیک کرتے پورے سسٹم کو کیوں اوپر نیچے کر دیا؟ سپریم کورٹ پورا ادارہ اور ٹائی ٹینک ہے ایک دم کیسے ادھر اُدھر موڑا جا سکتا ہے؟ غلطیاں اگر عدالت سے ہوئی ہیں تو پارلیمان اپنی طرف بھی دیکھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آئین میں گنجائش ہے کہ بینچز بنانے کا اختیار کسی ایک کو دیا جائے؟ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ بینچ کون بنائے گا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ پارلیمان نے تو ایک متفرق درخواست تک کے حوالے سے قانون بنا لیا، پارلیمان کو جو مسئلہ تھا اسے حل کرتے اور نتائج دیکھ کر پھر مزید قانون سازی ہوسکتی تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کئی کئی مہینوں تک مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوتے تھے، قانون سازی کا مقصد صرف ماسٹر آف روسٹرز نہیں تھا۔