آئینی ترامیم : حکومتی اتحاد مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت حاصل کرنےمیں پھر ناکام
مجوزہ آئینی ترامیم پر حکومتی اتحاد جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت حاصل کرنےمیں ناکام رہا، مجوزہ ترامیم کی رازداری کو تنازع کی اہم بنیادی وجہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔
گزشتہ روز حکمران اتحاد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے علیحدہ علیحدہ مولانا فضل الرحمٰن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقاتیں کرنا تھیں تاکہ جے یو مولانا کو آئینی پیکج کی منظوری میں حمایت کےلیے آمادہ کیا جاسکے۔
تاہم حیران کن طور پر مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ ن کے وفد سے ملاقات نہیں کی جس نے ظہر کی نماز کےبعد پہنچنا تھا، جے یو آئی ف نے حکومتی وفد کا انتظار کرنے کےبجائے سہ پہر 3 بجے اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس شروع کردیا۔
بعد ازاں ایک گھنٹےبعد مسلم لیگ ن کے رہنما محسن شاہنواز رانجھا ان کی رہائش گاہ پہنچے تو انہیں یہ پیغام دیاگیا کہ میزبان مصروف ہیں۔
لیگی رہنما محسن شاہنواز رانجھا نے میڈیا کےنمائندوں کو بتایاکہ وہ کوئی وفد نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمٰن کے دوست ہیں اور مذاکرات کےلیے نہیں آئے تھے، تاہم ایسا دکھائی دیتاہے کہ حکومتی وفد بھی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کےلیے اس لیے نہیں آیاکیوں کہ ان کے پارٹی رہنما کو جے یو آئی کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا، البتہ جے یو آئی ف کےرہنماؤں کی پیپلز پارٹی کے وفد سے خوش گوار ملاقات ہوئی۔
ملاقات کےبعد میڈیا سے گفتگو کرتےہوئے خورشید شاہ اور نوید قمر نے کہاکہ جے یو آئی ف کےسربراہ کو بتایاگیا ہےکہ پیپلز پارٹی بل پر کام کررہی ہے اور پارٹی آئینی عدالت کےقیام کی حمایت کرتی ہے۔
جے یو آئی ف کےسینیٹر کامران مرتضیٰ نے آرٹیکل 8 اور آرٹیکل 199 میں ترامیم کی مخالفت کی،انہوں نے صحافیوں کو بتایاکہ پی پی پی ہمیں اپنا مسودہ دےگی،ہم اسے دیکھیں گےاور اتفاق رائےسے فیصلہ کریں گے۔
پی پی پی کے وفد کے ایک رکن نےاعتراف کیاکہ جے یو آئی ف کی ٹیم مجوزہ آئینی ترامیم کی شقوں اور اثرات پر مرکوزرہی۔
حکومت سے جے یو آئی ف کی قیادت کی جانب سےکسی مطالبے کےبارے میں پوچھے گئے سوال کےجواب میں پی پی پی کےوفد نےکہا کہ مذاکرات کےدوران کسی اور موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ روز وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور سینیٹر انوار الحق بھی مولانا کی رہائش گاہ پرگئے،ملاقات میں جے یو آئی ف کو بلوچستان حکومت اور وفاقی حکومت میں شمولیت کی پیش کش کی گئی۔
تاہم مولانا فضل الرحمٰن نےکسی پیش کش کا جواب دینے کےبجائے شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمٰعیل کو دعوت دی، جو گزشتہ چند دنوں سے جے یو آئی ف کے رہنما سے ملاقات کے خواہش مند تھے۔
ذرائع کے مطابق معاملات آگے نہیں بڑھے اور مولانا فضل الرحمٰن نےمجوزہ آئینی ترمیم کےبارے میں شاہد خاقان عباسی کی رائے بھی حاصل کی،حکومت میں جے یو آئی ف کو کسی بھی قسم کی پیشکش کرنے کا موضوع اب ٹل گیاہے۔
مفتاح اسمٰعیل کاکہنا تھاکہ ملاقات کےدوران مولانا فضل الرحمٰن نےکئی بار اس بات کا اعادہ کیاکہ ان کی واحد دلچسپی آئین میں ترامیم کےسنجیدہ موضوع پر وسیع تر بحث کرناہے جب کہ مجھے ایسا نہیں لگتا کہ وہ حکومت میں کوئی عہدے کامطالبہ کررہے ہیں۔