مونال ریسٹورنٹ کھولنے کا عدالتی حکم تنقید کی زد میں
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر نیشنل پارک کی زمین پر بنائے گئے
مونال ریسٹورنٹ کو کھولنے کا فیصلہ شدید عوامی تنقید کی زد میں آ گیا ہے
اور اس فیصلے کے قانونی جواز پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
8 مارچ کے روز سپریم کورٹ نے فوج کی زیر نگرانی چلنے والے مونال ریسٹورنٹ کو سیل کرنے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا مختصر فیصلہ معطل کرتے ہوئے ریسٹورنٹ کو کھولنے کا حکم دے دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریسٹورنٹ کو سیل کرنے کے خلاف دائر کردہ درخواست کی سماعت کی۔
ریسٹورنٹ کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختصر حکم کی تصدیق شدہ کاپی دستیاب ہے نہ تفصیلی فیصلہ موجود ہے، اس کے باوجود ریسٹورنٹ سیل کردیا گیا۔وکیل کا کہنا تھا کہ انٹرا کورٹ میں دو مرتبہ اپیل سماعت کے لیے مقرر ہوئی لیکن سماعت سے قبل ہی کیس منسوخ ہوگیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحریری عدالتی حکم سے پہلے ہی ریسٹورنٹ سیل کیسے کیا گیا؟ اس کیس میں تو وائلڈ لائف بورڈ تو فریق ہی نہیں تھا پھر سیل کرنے میں پُھرتی کیوں دکھائی گئی؟
دوران سماعت بار بار مداخلت کرنے پر جسٹس اعجاز الحسن نے چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا احمد کی سرزنش کرتے ہوئے انہیں روسٹرم سے ہٹا دیا، عدالت نے روسٹرم سے ہٹنے کے باوجود بات جاری رکھنے پر رعنا احمد کو جھاڑ پلا دی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اصولی طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا کوئی حکم موجود نہیں، زبانی حکم کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں ہوتی، کیا یہ بادشاہت نہیں ہے کہ شہنشاہ نے فرمان جاری کیا اور دستخط سے پہلے ہی عمل درآمد ہوگیا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہائی کورٹ نے مونال ریسٹورنٹ کو سیل کرنے کا حکم نامہ جاری نہیں کیا، اسے مجسٹریٹ نے بغیر نوٹس کے سیل کیا جبکہ مونال ریسٹورنٹ کے ساتھ موجود دوسرے ریسٹورنٹس کو سیل کرنے سے قبل نوٹس دیا گیا ہے۔ اسکے بعد سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا غیر دستخط شدہ مختصر حکم نامہ معطل کرتے ہوئے ریسٹورنٹ کو ڈی سیل کرنے کا حکم دیا اور سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
تاہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ناقدین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مونال ریسٹورنٹ کو سیل کرنے کے واضح تحریری احکامات جاری کیے تھے لیکن سپریم کورٹ میں غلط بیانی کی گئی۔چیئر پرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا احمد نے ودالری فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ مونال ریسٹورنٹ نیشنل پارک کی زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا ہے لیکن حیرت ہے کہ سپریم کورٹ نے اسلام حقیقت کو نظر انداز کر دیا۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 11 جنوری 2022 کو مونال ریسٹورنٹ کو اسی دن سیل کرنے اور سی ڈی اے کو نیوی گالف کلب کا قبضہ لینے کا حکم دیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف کیسز پر سماعت کے دوران یہ حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ نیشنل پارک ایریا محفوظ شدہ علاقہ ہے، اس میں کوئی سرگرمی نہیں ہو سکتی، نیشنل پارک ایریا میں کوئی گھاس بھی نہیں کاٹ سکتا۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے استفسار کیا تھا کہ مونال کی 8 ہزار ایکڑ زمین کا دعویٰ کون کر رہا ہے؟ اس عدالت کو نیشنل پارک کا تحفظ کرنا ہے، وہ 8 ہزار ایکڑ زمین اب نیشنل پارک ایریا کا حصہ ہے، جسے اب 1979 کے قانون کے تحت مینیج کیا جائے گا۔
عدالت عالیہ نے حکم دیا تھا کہ مونال کی لیز ختم ہو چکی ہے تو اسے سیل کریں، ساتھ ہی تحفظ ماحولیات کے ادارے کو تعمیرات سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی نشان دہی جلد مکمل کرنے اور ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا 8 ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ 8 ہزار ایکڑ زمین مارگلہ نیشنل پارک کا حصہ سمجھی جائے۔ بعد ازاں مونال ریسٹورنٹ کے وکیل مخدوم علی خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی۔ کیس کی سماعت کے لیے جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس بینچ کی تشکیل سے ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اب مونال ریسٹورنٹ کے حق میں فیصلہ آئے گا۔