مریم کی وزارت اعلی کے دوران ریپ سمیت جرائم میں کئی گنا اضافہ

مریم نواز کے وزیراعلی بننے کے بعد سے پچھلے ایک برس کے دوران پنجاب، خصوصاً لاہور میں جرائم کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ لاہور میں جن جرائم میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ان میں ریپ، چوری، ڈکیتی، راہزنی، قتل اور گاڑیوں کی چوری کے واقعات شامل ہیں۔
پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں ہر 15 منٹ بعد ایک عورت کا ریپ رپورٹ ہو رہا ہے، 2023 کے مقابلے سال 2024 میں پنجاب میں ریپ اور ’گینگ ریپ‘ کے کیسز دوگنے سے ذیادہ رپورٹ ہوئے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گزشتہ برس چار ہزار 257 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے جو کہ 2023 میں درج ہونے والے ریپ کیسز سے دوگنا ہیں۔ پولیس اعداد و شمار کے مطابق وزیراعلی مریم نواز کے دعووں کے برعکس 2023 کے مقابلے میں 2024 میں ریپ کیسز میں کمی کی بجائے اضافہ ہو گیا ہے، یعنی ایک خاتون وزیراعلی کے دور حکومت میں پنجاب میں عورتوں کی عزت و ناموس اور بھی زیادہ غیر محفوظ ہو گئی ہے۔
پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر درج اعداد شمار کے مطابق 2024 میں رپورٹ ہونے والے ریپ کے کل چار ہزار 257 کیسز میں سے صرف دو ہزار 764 کیسز میں چالان پیش کیا گیا ہے۔ ان کیسز میں سے 455 کی اب بھی تفتیش جاری ہے جبکہ ایک ہزار 27 کیسز رد ہوئے اور 11 کیسز کا سراغ نہیں مل سکا۔ یاد رہے کہ سال 2023 میں پنجاب میں رجسٹرڈ ہونے والے ریپ کیسز کی تعداد چار ہزار 152 تھی جن میں سے 840 رد ہوئے اور 9 کا سراغ نہیں مل سکا تھا۔
20 جنوری 2025 کو لاہور ہائی کورٹ میں ایک ریپ کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے تسلیم کیا کہ 2024 میں ریپ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا اور صوبے میں اوسطا ہر 15 منٹ میں ایک ریپ ہو رہا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے اس انکشاف کے بعد چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ میں شامل جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ نے فوری آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو عدالت طلب کر لیا۔ آئی جی پنجاب نے عدالت کو یقین دلایا کہ پولیس پنجاب میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
لیکن اس دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ اینٹی ریپ ایکٹ بننے کے بعد سے پنجاب میں ڈیڑھ لاکھ ریپ کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ہر 15 منٹ میں ایک ریپ ہو رہا ہے، ہم تو اس حساب سے ریپ کیسز میں بھارت سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پنجاب کے ہر ویمن پولیس سٹیشن پر ریپ کیسز کے اندراج کے لیے خواتین تعینات ہیں، اس کے علاوہ میڈیکل آفیسر بھی دستیاب ہوتا ہے، انکا کہنا تھا کہ اسی لیے رپورٹ ہونے والے ریپ کیسز کی تعداد میں 2024 کے دوران اضافہ ہوا۔
دوسری جانب پنجاب پولیس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں سال 2024 میں ریپ کیسز کی تعداد بڑھنے کے علاوہ ’گینگ ریپ‘ کے کیسز میں 100 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا جو کہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ سال 2023 میں پنجاب میں گینگ ریپ کے 488 کیسز رپورٹ ہوئے تھے مگر 2024 میں ایک ہزار سات گینگ ریپ کے کیسز رپورٹ ہے جو کہ 2023 کے مقابلے میں دُگنے ہیں۔
پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر درج اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پنجاب میں درج ہونے والے کل مقدمات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ صوبے میں 2023 کے مقابلے میں 2024 میں تقریبا 30 ہزار زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ 2023 میں 11 لاکھ 10 ہزار 525 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جبکہ 2024 میں 11 لاکھ 42 ہزار 664 کرائم کیسز رپورٹ ہوئے جن میں چھ لاکھ 46 ہزار 911 کیسز میں چالان جمع کرا دیا گیا ہے۔ 2024 میں پنجاب میں مختلف کیسز میں ملزمان کی بری ہونے کی شرح سزا پانے والوں سے زیادہ رہی۔ گذشتہ برس ایک لاکھ آٹھ ہزار 903 افراد کو سزا جبکہ ایک لاکھ 77 ہزار 267 افراد بری ہوئے۔
اسکے علاوہ صوبے میں اغوا کے کیسز میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2023 کے مقابلے میں 2024 میں اغوا کے تقریبا 6000 کیسز زیادہ رپورٹ ہوئے۔ 2023 میں 24 ہزار 746 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 2024 میں یہ کیسز بڑھ کر 30 ہزار 137 ہو گئے۔ پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر درج اعداد شمار کے مطابق 2024 میں پانچ ہزار 121 قتل کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے تین ہزار 916 کیسز میں چالان جمع کرا دیا گیا ہے جبکہ 717 کیسز ابھی بھی تفتیش جاری ہے۔ ان رپورٹ کیسز میں سے 336 کینسل اور 152 کیسز کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ جبکہ 2023 میں قتل کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد پانچ ہزار 28 تھی۔
دوسری طرف پولیس کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم نئے ڈیٹا سسٹم کی وجہ سے جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی رجسٹرڈ تعداد میں کئی سو گنا اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ جب پنجاب پولیس کے ترجمان سے صوبے میں جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ پچھلے کچھ عرصے میں ایف آئی آرز کی رجسٹریشن کے عمل میں تیزی کے باعث پولیس ریکارڈ میں جرائم کی شرح میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب میں وقت کے ساتھ پولیس کا نظام بھی جدت اختیار کر رہا ہے، اب جرائم پیشہ افراد کا باضابطہ ریکارڈ اسی وقت مرتب ہونا شروع ہو جاتا ہے جب کسی تھانے میں ایک ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ ایف آر میں نامزد ملزمان کی گرفتاری کے بعد ان کا ڈیٹا سسٹم کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ لہذا اب پنجاب پولیس کے ریکارڈ میں جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دکھائی دیتا ہے۔ تاہم پولیس ترجمان کا یہ موقف حقیقت پر مبنی نہیں چونکہ جرائم پیشہ افراد کو ڈیٹا کا حصہ بنانے کا عمل سابق نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کے دور میں ہی شروع ہو چکا تھا۔
اردو نیوز کو دستیاب سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پنجاب بھر میں اس وقت رجسٹرڈ جرائم پیشہ افراد کی تعداد 19 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جبکہ لاہور میں ایسے رجسٹرڈ جرائم پیشہ افراد کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ سے بھی بڑھ چکی ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں پنجاب کے کل جرائم پیشہ افراد میں سے 30 فیصد صرف لاہور میں ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک برس میں لاہور میں پنجاب کے کسی بھی دوسرے شہر سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ جرائم پیشہ افراد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پنجاب پولیس کے سابق آئی جی خالد خواجہ فاروق نےاس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافے کو صرف ایک عدسے سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جیسے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے ویسے ہی جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ڈیجیٹل ریکارڈ کی وجہ سے بھی چیزیں تبدیل ہوئی ہیں۔ اب ہر کسی کا ڈیٹا ایک ہی جگہ پر اکھٹا ہو رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ریکارڈ صرف کاغذی فائلوں پر بنتے تھے اور فیکس کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجے جاتے تھے لیکن اب یہ سارا کام پلک جھپکنے میں ہو جاتا ہے۔ سابق آئی جی کا کہنا تھا کہ ’اب تو ادھر ایف آئی آر ہوتی ہے اور ملزم گرفتار ہوتا ہے یا نامزد ہوتا ہے تو اسی وقت اس کا ریکارڈ مرتب ہو جاتا ہے۔ صرف شناختی کارڈ سے ہی پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس شخص پر کس علاقے میں کس نوعیت کا مقدمہ درج ہے۔
قرضوں کا خاتمہ اور معاشی استحکام کی لمبی جدوجہد جاری رکھیں گے ، وزیر اعظم
پنجاب کے پراسکیوٹر جنرل فرہاد علی شاہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’ایف آئی آر کی رجسٹریشن کے نظام میں بہت بہتری آئی ہے، اس میں ایک بہت لمبا عرصہ لگا ہے۔ عدالتوں نے فیصلے دیے اور نظام کو اَپ گریڈ کیا گیا اب شاذ ونادر ہی ایسی خبر ملتی ہے کہ پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا۔ بلکہ پہلے مقدمہ درج ہوتا ہے پھر واقعے کی خبر لوگوں کو ملتی ہے۔ جس سے اوور آل ریکارڈ بننے میں تیزی آئی ہے۔‘ فرہاد علی شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ویسے بھی معاشی صورت حال، سیاسی معاملے اور خاص طور پر سوشل میڈیا کے عوامل نے بھی پولیس کا کام بڑھایا ہے اور جرائم کی نوعیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پہلے صرف چوری ڈکیتی قتل یا فراڈ ہوتے تھے لیکن اب تو ہنی ٹریپ سے لے کر سوشل میڈیا پر دشمنیوں اور کرپٹو فراڈ نے جرائم کی نوعیت بدل دی ہے۔ لہذا پنجاب میں مجرموں اور جرائم کی شرح میں اضافہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔