ڈان اخبار نے عمران کو اعلیٰ منصب کے لیے نااہل قرار دے دیا

پاکستان کے موقر ترین انگریزی اخبار ڈان نے واضح پوزیشن لیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان کے حالیہ اقدامات نے ثابت کیا ہے کہ وہ جمہوری نظام میں کسی عوامی عہدے کے لیے بالکل بھی موزوں شخص نہیں ہیں۔

ڈان اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی عمل کو ایک ایسے شخص کے حکم پر تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا جو مسلسل پارلیمانی عمل کے بارے میں حقارت کا اظہار کرتا رہا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے پاکستان کو آئینی بحران کی تاریک کھائی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ حالیہ واقعات کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ عمران خان نے بہت پہلے سے یہ گھناؤنا کارڈ کھیلنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا جس نے پوری قوم کو ہکا بکا کر کے رکھ دیا ہے۔

ڈان اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے پہلے وزیراعظم نے بار بار اشارہ دیا تھا کہ ان کے پاس ایک ’ٹرمپ کارڈ‘ ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اور ذرائع ابلاغ عدم اعتماد کے ووٹ میں عمران خان کی شکست کی بلا ججھک پیش گوئی کر رہے تھے، تاہم ایسے آثار موجود تھے کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑبڑ ہو سکتی ہے تاکہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کو رکوایا جاسکے۔ اس کے باوجود شاید ہی کسی کو اندازہ تھا کہ جمہوری طریقہ کار کی مدد سے اقتدار میں آنے والی جماعت اپنا اقتدار بچانے کے لئے طور پر آخری چال میں واضح آئین شکنی کرتے جمہوری نظام ہی کو نذر آتش کر دے گی۔

ڈان اخبار کہتا ہے کہ جس طریقے سے یہ قدم اٹھایا گیا اس سے قوم ایک گہرے صدمے سے دوچار ہوئی ہے۔ ایک خود ساختہ ‘فائٹر’ نے ایسے بے ضابطہ رویے سے اپنی سیاسی قامت پاش پاش کر لی ہے۔ ‘آخری گیند تک کھیلنے’ کے بجائے عمران خان نے کھیل کے قواعد و ضوابط ہی کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اور ہچ اکھاڑنے کے بعد وکٹیں لے کر بھاگ دوڑے۔ ڈان اخبار کے مطابق دستور پسندی کو ایک مہلک دھچکا پہنچا کر عمران خان نے ان بدترین خدشات کو تقویت دی ہے کہ وہ کسی جمہوری نظام میں عوامی منصب کے لیے موزوں شخص نہیں ہیں۔

اتوار کو قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا، اس سے ایوان میں کارروائی کے تمام ضابطوں کی خلاف ورزی ہوئی، خاص طور پر ایک ایسا ایوان جس میں تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی۔ اتوار کی کارروائی میں واضح طور پر ایک ناٹک کھیلا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے پاس وزیر اعظم کو بے دخل کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد موجود تھی۔ تاہم، نئے تعینات ہونے والے وزیر قانون اس تحریک کو ووٹ کے لیے پیش کئے جانے سے پہلے ہی آئین کے آرٹیکل 5 کی بنیاد پر ‘اعتراض’ ریکارڈ کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس سادہ سی شق میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ "ریاست سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔ ”

ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کارروائی کی صدارت کی کیونکہ اپوزیشن نے سپیکر کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی تھی۔ لیکن قاسم سوری نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرارداد کو پھرتی کے ساتھ پاس کر دیا جس میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش کا شاخسانہ قرار دیا گیا تھا۔ ڈان اخبار لکھتا ہے کہ ڈپٹی سپیکر نے شرمناک جلد بازی کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دیا اور ایسے کسی ثبوت کے بغیر کہ اس تحریک کا کسی غیر ملکی سازش سے کوئی تعلق ہے، ڈپٹی سپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ یہ آرٹیکل 5 سے متصادم ہے۔

ڈپٹی سپیکر نے اجلاس ملتوی کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے اپنا نام لینے کی بجائے اسد قیصر کا نام لے دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سارا منصوبہ پہلے سے تیار کیا گیا تھا۔
ڈان اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ اس سے پہلے کہ قوم اس صدمے کو ہضم کر سکتی، اسمبلی کے اجلاس سے غیر حاضر وزیراعظم قومی ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے۔ پہلے سے طے شدہ خطاب میں وزیر اعظم نے تحریک عدم اعتماد کی ‘ناکامی’ پر قوم کو ‘مبارکباد’ دی اور انکشاف کیا کہ وہ صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے پہلے ہی خط لکھ چکے ہیں تاکہ نئے انتخابات کرائے جا سکیں۔

قبل ازیں وہ آئینی طور پر وہ اسمبلی کو تحلیل نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پیش کیا جا چکا تھا۔ وزیر اعظم کی اس درخواست کو صدر نے، ایک بار پھر غیر مہذب جلد بازی کے ساتھ، تسلیم کرتے ہوئے فوری طور پر قومی اسمبلی کو برخاست کر دیا۔ اگر عمران خان کا اپنے وفاداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے امیدوار منتخب کرنے کا حیران کن فیصلہ بے اصولی دکھائی دیتا تھا، تو ان کے 3 اپریل کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جس سطح کا رہنما بننے کی خواہش رکھتے ہیں، اس کے لیے ان میں مطلوبہ اہلیت اور تحمل کی بھی کمی ہے۔

ڈان اخبار لکھتا ہے کہ وزیر اعظم ایک بااصول کھلاڑی کی طرح سیاسی طور پر بھی کھیل سکتے تھے۔ انہوں نے آئندہ انتخابی مہم کے لئے جو تند و تیز بیانیہ اختیار کیا تھا اس کی وجہ سے وہ وقتی نقصان کے باوجود مضبوط بن کر ابھرے تھے۔ اس کی بجائے وزیر اعظم نے ملک کو آئینی بحران میں الجھانے کا فیصلہ کیا۔ صدر بھی دانشمندی سے کام لینے میں ناکام رہے۔ صدر علوی نے پورے عمل کی آئینی حیثیت کو دیکھنے کی بجائے عمران کے وفادار کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے جانبدارانہ فیصلے سے صدر کے منصب اور اسکے وقار کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

پارلیمنٹ یا کوئی عہدیدار آئین سے بالا حکم جاری نہیں کر سکتا

اب معاملہ سپریم کورٹ کے سپرد ہو چکا ہے۔ کچھ حلقے اس بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے کافی بے چین نظر آتے ہیں کہ چونکہ نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے، اس لیے معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ ان عناصر کا کہنا ہے کہ حکومت کی برطرفی اور پارلیمنٹ میں نئی قیادت کا قیام تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھا چنانچہ حالیہ اقدامات کو ان مطالبات کی تکمیل سمجھنا چاہیے۔ تاہم، اس استدلال کی ہر سطح پر مزاحمت کی جانی چاہیے کیونکہ اس سے ایک غیر آئینی اقدام کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ڈان اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آئین شکنی کی روایت نے ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے لہذا حالیہ آئین شکنی کا راستہ سختی سے بند کیا جانا چاہیے اور امید کرنی چاہیے کہ سپریم کورٹ تمام فریقین کو باور کرائے گی کہ اقتدار پر فائز رہنے کا جائز راستہ صرف دستور کی پاسداری ہے نہ کہ آئین شکنی۔ ڈان اخبار اپنا اداریہ ختم کرتے ہوئے واضح الفاظ میں لکھتا ہے کہ آئین سے ہٹ کر اٹھایا گیا کوئی بھی قدم آئین کی محافظ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا اور ایسا کوئی بھی فیصلہ قوم کے لیے ناقابل قبول ہوگا۔

Dawn newspaper declared Imran ineligible for top post | video in Urdu

Back to top button