کیا دہشتگردی مخالف اجلاس میں شرکت نہ کر کے PTI نے صحیح کیا ؟

معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے بلوچستان کے معاملے پر ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عدم شرکت ان تمام اہل فکر و دانش کے لئے ایک دھچکا تھا جنہیں یہ توقع تھی کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد پوری قوم متحد ہو کر دہشت گردوں کے خلاف ایک نیا لائحہ عمل بنائے گی۔ انکے مطابق اپوزیشن جماعتوں کا فیصلہ بتاتا ہے کہ سیاسی تقسیم اتنی ذیادہ بڑھ چکی ہے کہ سیاسی اختلاف اب ذاتی اختلافات بن چکے ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ وہ جو ایک ایس ایچ او کی مار تھے ان سے نمٹنے کیلئے پارلیمینٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا خصوصی اجلاس بلایا گیا۔ اجلاس میں شرکت کیلئے پارلیمینٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کو بھی دعوت دی گئی۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کا خیال تھا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے اور اوپر تلے کئی علماء کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد انہیں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ضرور جانا چاہئے۔ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کرنے کیلئے تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا گیا۔ اس اجلاس میں ایک رائے تو یہ تھی کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت بہت ضروری ہے تاکہ قوم کو بتایا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف تحریک انصاف ریاست کے ساتھ کھڑی ہے۔

دوسری رائے یہ تھی کہ تحریک انصاف تو خود دہشت گردی کا نشانہ ہے۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو دہشت گردوں کی طرف سے روزانہ دھمکیاں دی جا رہی ہیں لیکن حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد قوم میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت تھی لیکن تحریک انصاف کے سنیٹر اعجاز چودھری کو سینٹ اجلاس میں لانے کیلئے پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اسکے علاوہ وزیر دفاع خواجہ آصف مسلسل تحریک انصاف کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیتے رہے، لہٰذا قومی تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں طویل بحث مباحثے کے بعد فیصلہ ہوا کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے ملاقات کرانے کا مطالبہ کیا جائے تاکہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کےبحوالے سے فیصلہ کیا جا سکے۔

حامد میر کے بقول اس دوران تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اڈیالہ جیل ملاقات کیلئے جانے والوں کو بتا دیا کہ وہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے خلاف ہیں۔ منگل کو اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کی عمران سے ملاقات ہوئی تو انہیں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے علاوہ اچکزئی صاحب کے موقف سے بھی آگاہ کیا گیا۔عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کی تائید کر دی۔ لیکن یہ بھی ایک طرح کی انتہا پسندی ہے جس کا مظاہرہ سوشل میڈیا پر بھی نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر حکومت کے حامی اور مخالف صرف ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے نظر نہیں آتے بلکہ ایک دوسرے کے خاندانوں کی خواتین کے بارے میں بھی نازیبا باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ افسوسناک رجحان ہمارے اخلاقی زوال کا مظہر ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد خدشہ ہے کہ ایک قومی اتفاق رائے کے بغیر دہشت گردوں کے خلاف نیا آپریشن شروع کیا گیا تو اس کا انجام بھی وہی ہو گا جو پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کا ہوا ہے۔ حکومت کی طرف سے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانا ایک اہم پیش رفت تھی لیکن اس اجلاس کو کامیاب بنانے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت تھی وہ نہیں کئے گئے۔ اب تحریک انصاف پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے اجلاس میں شرکت کو عمران کی پیرول پر رہائی سے کیوں مشروط کیا؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے تو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار نہیں کیا۔ وہ اجلاس میں شریک ہوئے اور انہوں نے کھل کر اپنا نکتہ نظر بھی بیان کیا۔ انہوں نے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے حالات کا جو نقشہ کھینچا وہ دراصل ریاستی اداروں کے خلاف ایک چارج شیٹ تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے وہی باتیں کیں جو تحریک انصاف کے قائدین کرتے ہیں لیکن مولانا صاحب کا لہجہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔

پاکستان کو ’ہارڈ سٹیٹ‘ بنانے کا بیان، آرمی چیف نے کس کو کیا پیغام دیا ؟

حامد میر کے بقول پچھلے چند ماہ سے عمران خان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح مولانا فضل الرحمان کو گرینڈ اپوزیشن الائنس کا حصہ بنا لیا جائے۔ مولانا صاحب اس معاملے میں بہت محتاط ہیں وہ موجودہ حکومتی بندوبست سے اتنے ہی نالاں ہیں جتنے عمران خان ہیں لیکن وہ خود کو مولانا ڈیزل قرار دینے والے عمران کے ساتھ اتحاد کر کے اپنے ناقدین کو یہ موقع نہیں دینا چاہتے کہ وہ انہیں مولانا یوٹرن قرار دے دیں۔

تحریک انصاف کی قیادت کو بھی احساس تھا کہ اگر مولانا فضل الرحمان اس کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوتے ہیں تو زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو نہیں بلکہ مولانا کو ہو گا۔ اسی لئے تحریک انصاف نے پچھلے دنوں مولانا صاحب کو ایک ایسی پیشکش کی کہ خود مولانا بھی ہکا بکا رہ گئے۔ مولانا کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی لہٰذا انہوں نے تحریک انصاف والوں سے کہا کہ جے یو آئی (ف) کے قائدین آپس میں صلاح مشورے کے بعد آپ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کریں گے۔ یہ بات چیت ابھی جاری تھی کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ ہو گیا اور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلالیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان نے اجلاس میں شرکت کی اور تحریک انصاف نے نہیں کی تاہم کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ مولانا اور عمران خان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ مولانا کے قریبی ذرائع کو بھی شکوہ ہے کہ تحریک انصاف نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔ ابھی تک تو مولانا نے تحریک انصاف کےساتھ مل کر کوئی تحریک چلانے کے معاملے پر لیت ولعل سے کام لیا ہے لیکن حکومت ایسے حالات پیدا کر رہی ہے کہ مولانا کے پاس تحریک انصاف کے ساتھ ملکر اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ رہے۔

Back to top button