کیا پیپلز پارٹی واقعی منصور شاہ کو چیف جسٹس بنوانا چاہتی تھی
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے دعوی کیا ہے کہ سینیئر موسٹ جج ہونے کے باوجود اگر جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بن پائے تو اس کی ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ تحریک انصاف ہے جو آخری لمحے میں ان کا ساتھ چھوڑ گئی۔ حامد میر سینئیر صحافی نصرت جاوید کی جانب سے کیا جانے والا یہ دعوی دہراتے ہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد بھی پیپلز پارٹی جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنوانا چاہتی تھی لیکن تحریک انصاف کی جانب سے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بائیکاٹ سے اس کی عددی پوزیشن کمزور ہو گئی لہٰذا اس نے نون لیگ کو ناراض کرنے کی بجائے جسٹس یحیی آفریدی کے نام پر اتفاق کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم تجزیہ کار سوال کرتے ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی نے 26 ویں ترمیم کے بعد بھی منصور علی شاہ کو ہی چیف جسٹس بنوانا ہوتا تو پھر بلاول بھٹو یہ کہتے ہوئے اتنی تگ و دو کیوں کرتے کہ منصور شاہ عمراندار ججز کو کنٹرول نہیں کر پائیں گے۔
روزنامہ جنگ میں اپنی تازہ تحریر میں حامد میر بتاتے ہیں کہ شروع شروع میں جسٹس منصور علی شاہ کو فائز عیسیٰ کا اتحادی سمجھا جا تا تھا لیکن پھر وہ قاضی صاحب کے مخالف گروپ میں چلے گئے۔ منصور علی شاہ سینئر ترین جج تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے بعد انہیں چیف جسٹس بننا تھا۔ لیکن میری رائے میں ان کا چیف جج بننے کا راستہ 26 ویں آئینی ترمیم نے نہیں بلکہ تحریک انصاف نے روکا ہے۔ تحریک انصاف نے 26ویں آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے کو مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو زرداری کے ذریعے تبدیل کرایا۔ تحریک انصاف نئے چیف جسٹس کی تقرری کےلیے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی پر بھی راضی ہوگئی۔ آخری وقت میں تحریک انصاف نے 26ویں ترمیم کی تو مخالفت کر دی لیکن وہ چید جسٹس کی نامزدگی کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت پر راضی ہوگئی۔
حامد میر سینیئر صحافی نصرت جاوید کی جانب سے کیا جانے والا دعوی دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف اور جے یو آئی کا خیال تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کیساتھ ملکر 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی میں سات یا آٹھ ووٹوں سے منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنوا لیں گی۔ لیکن آخری وقت پر تحریک انصاف نے کمیٹی اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ جب پیپلز پارٹی نے دیکھا کہ تحریک انصاف کمیٹی سے نکل گئی ہے اور اس کے ووٹ کم پڑ گئے ہیں تو انہوں نے مسلم لیگ ن کو ناراض کرنا مناسب نہ سمجھا اورجسٹس یحییٰ آفریدی پر اتفاق کر لیا۔ تاہم سیاسی تجزیہ کار اس دعوے کی لاجک پر سوال اٹھاتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی 26ویں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے اتنی تگ و دو کرنے کے بعد منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنوانے کی کوشش کیوں کرتی جب کہ خود بلاول بھٹو بھی ان کے حق میں نہیں تھے۔
8 سیٹوں والے مولانا 80 سیٹوں والے کپتان سے زیادہ اہم کیسے ہو گئے ؟
بقول حامد میر جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس بننے کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو شامل کرلیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ نئے چیف جسٹس آئین و قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کے مقدمے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا موقف پسند نہیں تھا کیوں کہ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی کیوں کہ اس نے الیکشن 2924 میں کوئی ایک بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ تحریک انصاف کے وکلا نے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان تو کیا ہے لیکن وہ بھول گئے کہ یحییٰ آفریدی نے تحریک انصاف کے 103 کارکنوں اور رہنماؤں پر 9 مئی 2023 کے واقعات میں آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی مخالفت کی تھی۔
حامد میر کہتے ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی کے ساتھ ہی نواز شریف بھی بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ ان کی بیرون ملک روانگی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم اتنی جلدی نہیں آئے گی۔ حکومتی ذرائع کا کہناہے کہ نواز شریف جلد واپس آ جائیں گے اور 27 ویں آئینی ترمیم وہ نواز شریف کے بغیر بھی منظور کرا سکتے ہیں۔ لیکن بقول حامد میر معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق بلاول بھٹو نے بتا دیا ہے کہ 26 ویں ترمیم فائز عیسیٰ کی وجہ سے منظور ہوئی۔ لیکن اب 27ویں ترمیم کےلیے نئے چیف جسٹس کی سیاسی خدمات میسر نہیں ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اگر 26 ویں ترمیم فائز عیسی کی مدد سے منظور ہوئی تو کیا وہ جسٹس منصور علی شاہ کو اپنی جگہ چیف جسٹس بنوانا چاہتے تھے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روک کر جسٹس یحیی آفریدی کو ہی چیف جسٹس بنوانا چاہتے تھے اور دونوں حکومتی اتحادی اپنے منصوبے میں کامیاب رہے۔