8 سیٹوں والے مولانا 80 سیٹوں والے کپتان سے زیادہ اہم کیسے ہو گئے ؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں صرف آٹھ ممبران ہونے کے باوجود اپنی سیاسی اہمیت اتنی بڑھا لی ہے کہ عمران خان جیسا سیاستدان 80 ممبران اسمبلی کے ہوتے ہوئے بھی نہیں بڑھا پایا۔ لیکن مولانا کےلیے اب سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ بیک وقت نون لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سے دوستی کیسے نبھائیں گے۔ انہیں دوستی کےلیے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔
اپنی تازہ تحریر میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ مولانا کی قسمت اچھی ہے کہ قومی اسمبلی میں اٹھ اور سینٹ میں صرف پانچ سیٹوں کے باوجود اللہ نے حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو ان کا محتاج بنا دیا. پھر مولانا نے ایسی سیاست کی کہ بلاول بھٹو بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گے کہ وہ اپنے والد کے بعد اگر کسی سیاستدان کو مانتے ہیں تو وہ مولانا فضل الرحمٰن ہیں۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ مولانا کا نام لینے کے بھی روادار نہ تھے۔
تاہم سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائج کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن میں وقتی طور پر سیاسی اہمیت حاصل کی تھی جو کچھ عرصے بعد کم ہو جائے گی۔ ان کے مطابق ہو سکتا ہے کہ حکومت کو 27ویں آئینی ترمیم کے لیے ایک مرتبہ پھر مولانا کی حمایت حاصل کرنی پڑ جائے لہٰذا اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اگلے کچھ ماہ تک مولانا حکومت کے لیے اہم رہیں گے اور حکومت انہیں اپنا سیاسی گرو بھی مانتی رہے گی، لیکن جیسے ہی مولانا کی ضرورت ختم ہوگی ان کی سیاسی اہمیت بھی کم ہو جائے گی۔
مولانانےعمران خان سے ماضی کی زیادتیوں کا بدلہ کیسے لیا؟
دوسری جانب انصار عباسی کہتے ہیں کہ آئین میں ترمیم کا جو پہلا مسودہ حکومت نے تیار کیا تھا اس کو ماننے کےلیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قیادت نے مولانا کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ مولانا حکومت میں حصہ مانگیں گے لیکن وہ ڈٹ گئے اور پہلے ترمیمی مسودہ سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔ بقول مولانا کے جب انہوں نے مسودے کا لفافہ کھولا تو اس میں سے کالا ناگ نکل آیا جس کے انہوں نے دانت توڑ دئیے ہیں۔
ان کے بقول اصل اہمیت جو مولانا نے حاصل کی وہ سیاست میں دوبارہ خود کو محور بنانے کی ہے۔ یاد ریے کہ الیکشن میں شکست کے بعد ان کا گھر سیاسی کعبہ بن گیا تھق جس کے گرد شہباز شریف، بلاول بھٹو اور پی ٹی آئی کے لیڈر باری باری طواف کر رہے تھے۔ اس دوران مولانا ڈٹے بھی رہے اور لچک بھی دکھاتے رہے۔ مسلہ یہ تھا کہ انہیں حکومت کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لے کر چلنا تھا۔ یہ پل صراط پر سفر تھا جو انہوں نے خوش اسلوبی سے عبور کیا۔
تاہم انصار عباسی نے یہ نہیں بتایا کہ ماضی میں عمران خان کی سخت مخالفت کرنے والے مولانا کو پی ٹی آئی کو ساتھ لے کر چلنے کی مجبوری کیا تھی خصوصا جب خود عمران خان انہیں مولانا ڈیزل اور فضلو کہنے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔
انصار عباسی کے بقول مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو ایسا خوش کیا کہ نواز شریف اور بلاول مولانا کےلیے واہ واہ کررہے ہیں جبکہ وہ اس طریقے سے کھیلے کہ پی ٹی آئی ترمیم کی مخالف ہوکر بھی مولانا سے ناراض نہیں ہے ، حالانکہ مولانا نہ مانتے تو یہ ترمیم پاس نہیں ہوسکتی تھی اور اگر پاس ہوتی تو اس کےلیے حکومت کو ہارس ٹریڈنگ کرنا پڑتی۔