پی ٹی آئی کی اپنی قیادت عمران خان کوجیل میں رکھنے کی خواہاں کیوں؟

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ جب بھی کسی سیاسی جماعت پر مشکل وقت آتا ہے تو اس کے اندر تقسیم اور گروپ بندی پیدا ہو جاتی ہے۔ آج کی سب سے ’’پاپولر‘‘ جماعت تحریک انصاف بھی مشکلات کا شکار ہونے کے بعد واضح طور پر تین گروپوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔

گروپوں کو ہولے، پولے اور بھولے کہہ لیتے ہیں

 ہم پنجابی زبان میں ان گروپوں کو ہولے، پولے اور بھولے کہہ لیتے ہیں۔ یہ تینوں گروپ اندرونی طور پر بھی منقسم ہیں اور ان کے نقطہ ہائے نظر میں بھی شدید اختلاف پایا جاتا ہے، جوں جوں سختیاں بڑھیں گی یہ گروپ بندی اور بھی مضبوط ہو گی۔ لیکن افسوس کہ اس وقت پی ٹی آئی اس گروپ کی یرغمالی بنی ہوئی ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے پارٹی کو بلیک میل کرتے ہوئے فوج سے لڑوا رہا یے، اس گروپ کے کرتا دھرتا خود سوشل میڈیا سے پیسے کما رہے ہیں اور عمران خان کو مسلسل جیل میں رکھنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔

معانی بہت گہرے اور مطالب بھرے ہوتے ہیں

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں پنجابی ہو یا کوئی بھی صدیوں پرانی زبان، اس کے الفاظ کے معانی بہت گہرے اور مطالب بھرے ہوتے ہیں، کئی لفظ تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان کا ہم معنیٰ یا ہم پلہ لفظ ہی نہیں ملتا۔ آئیے ہولے، پولے اور بھولے کو سمجھنے کی کوشش کریں، ہولے کا اردو ترجمہ ہلکا ہوتا ہے، لیکن پنجابی میں اس کا مطلب ان تراجم سے کہیں گہرا ہے۔ ہولا، کردار اور اعمال کے اعتبار سے کمزور اور ہلکے شخص کو کہا جاتا ہے کسی شخص کو کمزور کہنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ وہ تو ہولا ہے لہازا اس سے بڑی توقعات وابستہ نہ کریں۔ تحریک انصاف میں بھی دوسری جماعتوں کی طرح کافی ہولے لوگ موجود ہیں، کچھ ہولے تو دبائو میں آ کر پارٹی چھوڑ گئے اور کچھ چھوڑ جائیں گے، کچھ ہولے اپنی پارٹی سے نالاں رہتے ہیں، ان میں نہ کردار کی مضبوطی ہے اور نہ اپنے موقف پر کھڑے رہنے کی جرات۔

کئی یوتھیے زبان کے بہت تیز ہیں،سہیل وڑائچ

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے کئی یوتھیے زبان کے بہت تیز ہیں اور سوشل میڈیا پر کشتوں کے پشتے لگاتے رہتے ہیں۔ لیکن جب میدان میں اترنے کا وقت آتا ہے تو یہ غائب ہو جاتے ہیں۔ جب  کپتان طبل جنگ بجاتا یے تو ایسے ہولے زبان دراز سڑکوں پر نکلنے کی بجائے یا تو پتلی گلی سے ادھر ادھر ہو جاتے ہیں اور یا ہھر بیرون ملک نکل جاتے ہیں، یہ ہولے اپنی بدزبانی سے پارٹی کو تو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن خود مال بناتے ہیں۔ ان میں سے ایک چرب زبان مطلوب اور مفرور ہولا ایسا بھی ہے جو گرفتاری کے فورا بعد ہی گل ہو گیا تھا۔ چند روز جیل میں رہنے سے اس کی ہوا اس زور سے خارج ہوئی کہ پورے پاکستان نے نہ صرف سنی بلکہ دیکھی بھی۔ موصوف کی ڈرامے بازی کی حد یہ تھی کہ وہ سانس اکھڑنے کا ڈرامہ رچاتے ہوئے منہ پر آکسیجن ماسک لگائے ایمبولنس پر عدالت آتے اور پھر وہیل چیئر پر بیٹھ کر دھاڑیں مار مار کر روتے۔

بڑے بڑے منہ والوں کامشن دوسروں پرتنقید ہے،تجزیہ کار

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بڑے بڑے منہ والے تحریک انصاف کے کچھ ہولے خود تو زبان درازی کے علاوہ کچھ نہیں کرتے لیکن دوسروں پر تنقید کرنا انکا مشن یے، یہ خود کو عقل کل اور دوسروں کو بیوقوف سمجھتے ہیں، جب ان پر مشکل آئے تو جوتیاں اٹھائے بغیر سرپٹ دوڑ کھڑے ہوتے ہیں اور فورا وفاداری تبدیل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ انکے اصول اور نظریات بدلتے موسم کے کپڑوں کی طرح بدل جاتے ہیں۔ ایسے ہولے دراصل بلا کے موقع پرست ہوتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔

پی  ٹی آئی کاایک گروپ سافٹ قرار

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا سب سے دلچسپ گروپ وہ یے جس میں پولے شامل ہیں۔ پولا پنجابی کا ایسا لفظ ہے جس کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرنا محال ہے۔ بظاہر اس کا انگریزی ترجمہ سافٹ ہے اور اردو میں اسے نرم کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ تراجم پنجابی لفط پولا کا صحیح مفہوم ادا نہیں کرتے، لفظ پولا سمجھنے کیلئے آم چوسنے کے عمل کو ذہن میں لانا ہوگا۔ آم چوسنے کے لیے پہلے اسے دونوں ہاتھوں سے دبا کر نرم کیا جاتا یے۔ آم کو نرم کر کے چوسنے کیلئے تیار کرنے کے عمل کو پنجابی میں ’’پولا‘‘ کہتے ہیں۔

تحریک انصاف فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ہدف ہے،لکھاری

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اب کافی عرصے سے تحریک انصاف فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ہدف ہے اور اس کی قیادت سے لیکر اراکین اسمبلی تک سب کو ’’پولا‘‘ کیا جا چکا ہے۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ بہت سے پی ٹی آئی رہنماؤں کے فوج اور ایک اہم ترین وفاقی وزیر سے براہ راست رابطے ہیں، بھائی لوگوں اور وزیر با تدبیر ان کے چھوٹے موٹے کام کر دیتے ہیں اور جواباً وہ ان سے اپنی مشکلات پر قابو پانے میں مدد لیتے ہیں۔ پولے گنڈا پور کے رابطے تو اظہرمن الشمس ہیں، لیکن باقی کئی پولے بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہیں،  اسٹیبلشمنٹ اور اس کی اتحادی حکومت پی ٹی آئی کے اندر گھس چکے ہیں، اب انہیں کس حد تک کامیابی ملی، یہ تو علم نہیں مگر اس سارے عمل کا نتیجہ آئینی ترمیم پر ووٹنگ کے وقت ظاہر ہو گیا۔

پی ٹی آئی کے اندر تیسرا گروپ ’’بھولے‘‘ لوگوں پر مشتمل ہے،

سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر تیسرا گروپ ’’بھولے‘‘ لوگوں پر مشتمل ہے، پیپلز پارٹی میں ایسے لوگعن کو جیالے اور مسلم لیگ ن میں انہیں متوالے کہا جاتا ہے، لیفٹسٹ یا بائیں بازو والے اپنے اایسے لوگوں کو سرخا کہتے ہیں اور رائٹسٹ یا دائیں بازو والے انہیں جہادی قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی پارٹی سے وفادار ہوتے ہیں، تحریک انصاف کے مخالف انہیں یوتھیا یا عمرانڈو کہتے ہیں اور وہ خود کو انصافی اور عمرانی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن فوج ایسے لوگوں کو بھولا قرار دیتی ہے، اس کی نظر میں یہ لوگ بھولے بھٹکے ہوتے ہیں، یہ جھوٹے بیانیے کے اسیر ہیں، جن لیڈرز کو بھولوں نے دیوتا بنایا ہوا ہے وہ اصل میں ناکارہ بت ہیں، اسی لئے ان وفاداروں کو بھولا سمجھا جاتا ہے اور بھائی لوگ ان پر اپنا زیادہ وقت ضائع نہیں کرتے۔

اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ زور ہولے اور پولے لوگوں پر ہوتا ہے

انکا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ زور ہولے اور پولے لوگوں پر ہوتا ہے اور انہی دو گروہوں میں اسے اکثر کامیابی بھی مل جاتی ہے۔ اسوقت اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے اکثر ہولے اور پولے لوگوں سے دوستی گانٹھ چکی ہے، اور اب صرف بھولے ہی سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں، کوئی پولا غائب ہو کر خفیہ شادی کے مزے لے رہا ہے تو کوئی ہولا یہاں معافی تلافی کروا کے باہر بیٹھا ڈالر کما رہا ہے۔ ہولا خود تو باہر محفوظ بیٹھا ہے لیکن لوگوں کو بھڑکا کر سڑکوں پر نکالنے کی ترغیب رہا ہے، آج کل یہ والا ہولا بیرون ملک کمائے گئے لاکھوں ڈالرز انویسٹ کرنے کے حوالے سے مشورے بھی کر رہا ہے۔

80کی دہائی میں اسٹیبلٹمنٹ جے یوآئی کی حمایتی تھی

سہیل وڑائچ کہتے ہیں جب 80ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی کی لڑائی زوروں پر تھی تو فوج تب آئی جے آئی کی حامی اور پیپلز پارٹی کی سخت مخالف تھی۔ حالانکہ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی اپوزیشن میں تھی مگر اس کے 100سے زیادہ اراکین تھے جو پنجاب حکومت کیلئے اسمبلی کی کارروائی چلانا مشکل بنائے رکھتے تھے۔ مجھے اس زمانے کے وزیر اعلیٰ نواز شریف کی انتہائی قریبی شخصیت نے تب بتایا تھا کہ ہم نے پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کو پیلے، سرمئی اور سرخ رنگوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ان رنگوں کا مطلب بالترتیب وہی ہولے، پولے اور بھولے تھا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ہم 29 اراکین اسمبلی کو پولا کر چکے ہیں، میں نے پوچھا کہ وہ کیسے، تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے ہر ایک رکن پر تحقیق کی، اگر کوئی کشمیری ہے تو ہم نے اس سے کشمیری کنکشن بنا لیا ہے، اگر کوئی جاٹ ہے تو ہم نے اپنے وفادار جاٹ کو اس کے پیچھے لگا کر اسے پولا کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ لوگ ہم پر سخت والی تنقید نہیں کرتے، ہم بھی خفیہ طور پر ان کے کام کرتے رہتے ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ چنانچہ جب میں آج کی تحریک انصاف کے ہولوں، پولوں اور بھولوں کو دیکھتا ہوں تو 34 سال پہلے کی فوج اور اس کے بغل بچہ اسلامی جمہوری اتحاد کی حکمت عملی یاد آ جاتی ہے، آج بھی پاکستانی سیاست میں وہی حکمت عملی جاری و ساری ہے، بس حساب یہ ہونا ہے کہ تحریک انصاف میں کتنے ہولے، کتنے پولے اور کتنے بھولے ہیں؟

Back to top button