اینٹی اسٹیبلشمنٹ فائز عیسی پر پرو اسٹیبلشمنٹ ہونے کا الزام کیوں لگا ؟

25 اکتوبر 2024 کو پاکستان کے چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہونے والے قاضی فائز عیسی نے جب عہدہ سنبھالا تھا تو انہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھا جاتا تھا لیکن جب وہ ریٹائر ہوئے تو انہیں عمران خان کی تحریک انصاف کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری کے الزام کا سامنا تھا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قاضی فائز عیسی نے بطور چیف جسٹس عدلیہ میں وہ مشکل ترین ریفارمز کیں جو ماضی میں کسی اور چیف جسٹس کو کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ فائز عیسی پر ہرو اسٹیبلشمینٹ ہونے کا الزام بھی صرف ایک ہی جماعت لگا رہی ہے جو کپتان کا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے والے عمراندرا جج منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی۔

یاد رہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ 13 ماہ تک پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس رہنے کے بعد 25 اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو گئے۔ وہ ملک کی واحد عدالتی شخصیت ہیں جس کی تقرری بھی بطور چیف جسٹس ہوئی اور جس نے چیف جسٹس کی ہی حیثیت سے اپنا جوڈیشل کیرئیر بھی ختم کیا۔

یاد رہے کہ فائز عیسیٰ 2009 میں بلوچستان کے چیف جسٹس بنے اور پھر اکتوبر 2024 میں چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر ریٹائر ہوئے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق فائز عیسیٰ ایک ہنگامہ خیز سیاسی دور میں تب چیف جسٹس بنے جب عدلیہ میں تقسیم واضح تھی۔ اسی لیے ان کا عدالتی دور بھی تنازعات سے بھرپور رہا۔ اگر وہ تحریک انصاف کے لیے ولن تھے تو ملک کی دو سب سے پرانی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ان کو عدالتی تاریخ کا ہیرو قرار دیتی ہیں۔ ستمبر 2024 میں جب فائز عیسیٰ نے چیف جج کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا تو وکلا میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ جج ہیں اور نہ صرف عدلیہ میں موجود ججز کے درمیان اختلافات کو ختم کروائیں گے بلکہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا بھی خاتمہ کریں گے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر تب بنا تھا جب انھوں نے کوئٹہ میں وکلا پر ہونے والے خود کش حملوں سے متعلق قائم کمیشن کی سربراہی کرتے ہوئے اس واقعے کو خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیا تھا۔

اس کے بعد انہوں نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں کے کرتا دھرتا افراد کے خلاف کاروائی کا حکم جاری کیا تھا۔ اس کے بعد جب پی ٹی ائی کی حکومت نے ان کے خلاف ناہلی کا ریفرنس دائر کیا تو اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ان کی مخالف ہے اور انہیں نکالنا چاہتی ہے تاکہ وہ چیف جسٹس نہ بن پائیں۔

جسٹس منصور شاہ سپریم کورٹ میں اپنی الگ عدالت لگانے پر بضد کیوں ؟

 اسی ریفرنس کی وجہ سے فائز عیسیٰ کے تعلقات ان ججز سے اچھے نہیں رہے جنھوں نے صدارتی ریفرنس میں انھیں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ مل کر ٹف ٹائم دیا تھا۔ ان میں سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے والے جج اعجاز الااحسن کے علاوہ جسٹس منیب اختر اور برطرف کیے جانے والے جسٹس مظاہر اکبر نقوی شامل ہیں جب کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک کے ساتھ بھی کمرہ عدالت میں ان کے تعلقات بہتر نہیں رہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کو سنیارٹی کی بنیاد پر پانچ دسمبر 2014 کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔ ابھی انھیں سپریم کورٹ میں جج تعینات ہوئے دو سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اگست 2016 میں کوئٹہ میں خودکش حملے کی تحقیقات کے لیے ان کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دے دیا گیا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور ساتھ میں کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے جب 2015 میں چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا تو فائز عیسیٰ ان چھ ججز میں شامل تھے جنھوں نے فوجی عدالتوں کی مخالفت کی تھی۔

بعد میں اسلام آباد میں تحریک لبیک کے دھرنے کے خلاف از خود نوٹس کیس میں جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے نے سول اداروں کے ساتھ عسکری اداروں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا۔ تحریکِ لبیک نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے حوالے سے متنازع ترمیم کے خلاف نومبر 2017 میں دھرنا دیا تھا جس کا اختتام وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد ہوا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں آرمی چیف، اور بحری اور فضائی افواج کے سربراہان کو وزارتِ دفاع کے توسط سے حکم دیا کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔

تحریک انصاف کی حکومت میں صدر علوی نے وزیراعظم عمران خان کے ایما پر فائز عیسیٰ کے خلاف بیرون ممالک اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہلی کا صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا۔ اس ریفرنس کے خلاف درخواست میں فائز عیسیٰ نے دعویٰ کیا کہ تب کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ کے لان میں انھیں رازداری سے بتایا تھا کہ اس کا اصل مقصد مجھ سے استعفیٰ لینا ہے۔ فائز عیسیٰ نے اس صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جس کے دس رکنی بینچ کی اکثریت نے اس ریفرنس کو مسترد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو کارروائی سے روک دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دور میں کورٹ روم نمبر ون میں مقدمات کی عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے سے متعلق حکم دیا جسے سراہا گیا۔ فائز عیسی نے کئی دہائیوں بعد سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے خلاف صدارتی ریفرنس پر بھی فیصلہ سنایا اور سابق فوجی آمر پرویز مشرف کو آئین شکنی پر دی جانے والی سزائے موت کے خلاف اپیل کو بھی مسترد کیا۔ تاہم انکی شخصیت وکلا کے ایک دھڑے میں پی ٹی آئی کے انٹرپارٹی الیکشن کیس کے حوالے سے متنازع بنی جس میں سپریم کورٹ نے تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔

Back to top button