جسٹس منصور شاہ سپریم کورٹ میں اپنی الگ عدالت لگانے پر بضد کیوں ؟
سپریم کورٹ میں تقسیم ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئی ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس نامزد کیے جانے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے سارا غصہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر نکال دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے قاضی فائز عیسیٰ پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے ان کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس میں اپنے ہم خیال عمراندار ججز سمیت شرکت نہ کر کے پیغام دے دیا کہ وہ اب بھی سپریم کورٹ میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے پر بضد ہیں اور وہ عدلیہ میں تقسیم کا عمل جاری رکھیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک اور خط لکھتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے متعلق فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت روکنے کے بجائے مزید دروازے کھول دیے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے عدلیہ کے دفاع کے لیے اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط کو فل کورٹ کے سامنے رکھنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ آئینی حدود سے تجاوز پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کروں گا۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز کے ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات مزید پریشان کن ہیں، چیف جسٹس کا کردار عوام کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، چیف جسٹس کا کام عدلیہ کا دفاع اورعدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ پر بیرونی دباؤ نظر انداز کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں مزید کہا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ عدالتی رواداری و ہم آہنگی کے لیے لازمی احترام قائم کرنے میں ناکام رہے۔جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت روکنے کے بجائے مزید دروازے کھول دیے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے عدلیہ کے دفاع کے لیے اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا۔
سینئر ترین جج نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ میں مداخلت پر ملی بھگت کے مرتکب رہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت پر شترمرغ کی طرح سر ریت میں دبائے رکھا۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی نظر میں عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی قدر و عزت نہیں، چیف جسٹس نے شرمناک انداز میں کہا کہ فیصلوں پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔
پی ٹی آئی نے جسٹس منصور شاہ کو چیف جج بننے سے کیسے روکا؟
خط میں انہوں نے مزید لکھا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی، ججز میں تفریق کے اثرات تا دیر عدلیہ پر رہیں گے۔انہوں نے مؤقف اپنایا کہ چیف جسٹس قاضی فائز نے عدلیہ کو کمزور کرنے والوں کو گراؤنڈ دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس میں شرکت اور ایسے دور کا جشن منانا پیغام دےگا کہ چیف جسٹس اپنے ادارے کو نیچا کرسکتے ہیں۔جسٹس منصورعلی شاہ کا خط میں مزید کہنا تھا کہ ادارے کو نیچا کرنے کے باوجود سمجھا جائےگا کہ ایسا چیف جسٹس عدلیہ کے لیے معزز خدمت گار رہا ہے، میں ایسے چیف جسٹس کے ریفرنس میں شرکت نہیں کرسکتا۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عدالت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین جج کی حیثیت سے آج آخری دن ہے اور ان کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس میں سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک بھی ریفرنس میں شریک نہیں ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عدلیہ تقسیم کا شکار ہے۔
خیال رہے کہ24 اکتوبر کے روز جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھ کر پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 پر فل کورٹ میٹنگ تک کسی بھی خصوصی بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرلی تھی۔خط میں جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا تھا کہ فل کورٹ کی جانب سے جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کی آئینی توثیق کا تعین نہیں کیا جاتا یا سپریم کورٹ کے ججز فل کورٹ میٹنگ میں آرڈیننس پر عمل کرنے کا فیصلہ نہیں کرتے یا جب تک چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 سینئر ترین ججز کی کمیٹی بحال نہیں کی جاتی، میں نئی کمیٹی کی طرف سے بنائے گئے خصوصی بینچز کا حصہ نہیں بنوں گا۔