پی ٹی آئی نے جسٹس منصور شاہ کو چیف جج بننے سے کیسے روکا؟

سینیر صحافی اور تجزیہ کا نصرت جاوید نے کہا ہے کہ اگر جسٹس منصور علی شاہ سینیر ترین جج ہونے کے باوجود چیف جسٹس آف پاکستان نہیں بن پائے تو اس کا سارا کریڈٹ پہلے پی ٹی آئی کے عاشقان عمران خان کو اور پھر خود شاہ صاحب کو جاتا ہے۔

یاد رہے کہ قاضی فائز عیسی کے ریٹائرمنٹ سے تین ماہ پہلے ہی عاشقان عمران خان نے یہ شور ڈالنا شروع کر دیا تھا کہ انکے جج چیف جسٹس بنتے ہی حکومت کو گھر بھیج دیں گے۔ خود شاہ صاحب نے بھی ایسے فیصلوں کی لائن لگا دی جس سے حکومت خوفزدہ ہو گئی۔ تاہم جسٹس منصور علی شاہ نے اپنی چیف ججی کے تابوت میں آخری کیل تب ٹھونکا جب انہوں نے بطور ممبر ججز کمیٹی جسٹس منیب اختر کے ساتھ مل کر لاہور ہائی کورٹ کے ججز کی سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر موجود خاتون کو چیف جسٹس بنوا دیا کیونکہ ان کا تعلق بھی عاشقان عمران خان سے تھا۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اس سب کے باوجود پیپلز پارٹی والے تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام کے ساتھ مل کر جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنوانے پر تیار ہو جاتے لیکن تحریک انصاف نے چیف جسٹس کا چناؤ  کرنے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے ہی انکار کر دیا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عاشقان عمران کی اکثریت کو کامل یقین تھا کہ اگر سید منصور علی شاہ صاحب چیف جسٹس تعینات ہو گئے تو اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی ”فارم 45 اور فارم 47“ کا حساب لینا شروع ہو جائیں گے۔ متوقع حساب کے نتیجے میں ثابت ہوجائے گا کہ 8 فروری 2024ء کے دن ہوا انتخاب ”تحریک انصاف سے چرایا گیا تھا“۔ یہ طے ہو گیا تو منصور علی شاہ ہی کی ایجاد کردہ ترکیب کے مطابق عمران خان اور ان کے حامیوں کو ”مکمل انصاف“ مل جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ شاہ صاحب سے تخت یا تختہ والی امیدیں باندھنے کے بعد تحریک انصاف کی ہر ممکن کوشش ہونا چاہیے تھی کہ فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد منصور علی شاہ صاحب ہی چیف جسٹس کے عہدے کےلیے چنے جائیں۔ تا ہم عاشقان عمران خان نے شاہ صاحب کے چیف جسٹس بننے کے بعد کے منظر نامے پر اتنا زیادہ فوکس کیا کہ حکومت ڈر کر 26 ویں آئینی ترمیم لانے پر مجبور ہو گئی۔

نئے چیف جسٹس کے خلاف PTI تحریک چلانے کی پوزیشن میں کیوں نہیں ؟

نصرت جاوید کے بقول گزشتہ کئی مہینوں سے عاشقان عمران اصرار کئے چلے جا رہے تھے کہ نام نہاد فارم 47 کے بل پر قائم ہوئی حکومت کی ”جان“ طلسماتی کہانیوں میں بتائے ایک طوطے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میں ہے۔ اسی باعث یہ حکومت اور اس کے غیر سیاسی سرپرست موجودہ چیف جسٹس کی میعادِ ملازمت میں توسیع دینا چاہ رہے ہیں۔ مطلوبہ توسیع کی طلب ہی میں آئین میں ترامیم کا طومار تیار ہو رہا ہے۔ فائز عیسیٰ کو جائز و ناجائز وجوہات کی بنیاد پر ”دھاندلی زدہ انتخاب کی بنیاد پر قائم ہوئی حکومت“ کا واحد سہارا ثابت کرنے کی کوشش شروع ہو گئی۔ سوشل میڈیا پر اس سوچ کے فروغ نے بالآخر جسٹس صاحب کو جمہوریت کا دشمن ثابت کر دیا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ جمہوریت کے مبینہ دشمن سے نجات پانے کا واحد ذریعہ یہ تصور ہوا کہ ان کی میعاد ملازمت میں توسیع نہ ہو۔ ان کی جگہ سید منصور علی شاہ صاحب الجہاد ٹرسٹ والی اپیل کے تحت سنائے فیصلے کی وجہ سے بلاکسی روک ٹوک کے 26 اکتوبر 2024ء کے روز سے چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھال لیں۔ قاضی فائز عیسیٰ کو ”جمہوریت دشمن وِلن“ کی حیثیت میں مشہور کردینے کے بعد منصور علی شاہ کی دیانتداری اور اصول پسندی کا ذکر تواتر سے شروع ہو گیا۔ ہمیں یہ بتایا گیا کہ وہ ایک نہایت جرات مند شخص بھی ہیں۔ بڑھکیں لگانے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے روبرو کوئی مقدمہ پیش ہو تو اس کے قانونی نکات پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ سماعتیں مکمل ہو جانے کے بعد جو فیصلہ لکھتے ہیں وہ قانونی اعتبار سے ہی ”ثقہ بند“ نہیں ہوتا۔ انگریزی زبان و ادب کے دلدادہ افراد بھی ان کے لکھے فیصلوں میں لفظوں کے چناﺅ پر خوش گوار حیرت کا اظہار شروع کر دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ سے دوری کی وجہ سے مجھے اسکی اندرونی سیاست کا نہ تو علم ہے اور نہ ہی میں اس میں دلچسپی لیتا ہوں۔ عدالتوں کے معزز ترین ججوں میں سے کسی ایک سے میں نے کبھی ”مسیحا“ برآمد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ رومانوی سوچ رکھتے ہوئے افتخار چودھری کا جنرل مشرف کو ”انکار“ پسند آیا تھا۔ اس کی وجہ سے عدلیہ بحالی کی جو تحریک چلی اس میں اپنی اوقات سے زیادہ حصہ بھی ڈالا۔ بالآخر نتیجہ مگر یہ نکالا کہ اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ آئین کی 26 ویں ترمیم پاس ہوجانے کے بعد قومی اسمبلی کے 8 اور سینٹ کے چار اراکین پر مشتمل کمیٹی نے تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو نئے چیف جسٹس کی صورت منتخب کرنا تھا۔ اس ضمن میں جو کمیٹی بنی اس میں شمولیت کے لئے تحریک انصاف نے تین نمائندوں- بیرسٹر ظفر، گوہر خان اور حامدخان – کے نام بھی دیے۔ مذکورہ کمیٹی کے لئے جے یو آئی نے سینیٹر کامران مرتضیٰ کو چنا۔ پیپلز پارٹی کے تین نمائندے تھے۔ نصرت جاوید کہتے ہیں کی آپ کو انتہائی ذمہ داری سے یہ خبر دے رہا ہوں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر تحریک انصاف ان کے ساتھ مل کر منصور علی شاہ صاحب کو چیف جسٹس کے عہدے کے لئے منتخب کرنا چاہے گی تو وہ اور جمعیت العلمائے اسلام اس ضمن میں اس کا ساتھ دیں گے۔ یوں ہو جاتا تو مسلم لیگ (نون) اپنی پسند کے امیدوار کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ تحریک انصاف کے تینوں نمائندے مگر حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ہوئے تمام تر ترلے منتوں کے باوجود آئین کی 26 ویں ترمیم کے بعد قائم ہوئی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے تشریف ہی نہ لائے۔ بالآخر جب کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا تو وہاں موجود جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ واحد شخص تھے جنہوں نے منصور علی شاہ کا نام لیا۔ قرعہ بالآخر جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام نکلا۔ یوں تحریک انصاف کی شاہ صاحب سے ”محبت“خوب صورت انجام تک پہنچ نہ پائی۔

Back to top button