پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کا امکان مزید کم کیوں ہو گیا؟

قومی و صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں جہاں ایک طرف الیکشن کمیشن اس حوالے سے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد سے انکاری ہے وہیں دوسری جانب اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے مخصوص نشستوں بارے اپنے اقلیتی تفصیلی فیصلے میں عمراندار ججز کی دھلائی کرتے ہوئے اکثریتی فیصلے اور جاری کردہ وضاحتوں کو نہ صرف خلاف قانون قرار دیا ہے بلکہ وضاحت کر دی ہے کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں بارے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد کا پابند نہیں اور اس فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی کوئی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی۔

پاکستان کی سیاسی صورت حال میں جہاں غیر یقینی کی فضا غالب ہے، وہیں حکمران اتحاد کو پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے ایک قانونی معمہ درپیش ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے متعارف ہونے کے بعد مخصوص نشستوں بارے فیصلہ ایک مرتبہ پھر قانونی اور آئینی بحث کے مرکز میں آ گیا ہے۔

تاہم آئینی ماہرین کے مطابق چھبیسویں آئینی ترمیم اور عدلیہ میں تبدیلیاں پی ٹی آئی کے لیے غیر یقینی مسقبل کا پیش خیمہ ہیں لگتا نہیں مستقبل قریب میں بھی پی ٹی آئی کو عدالتوں سے کسی قسم کا من چاہا ریلیف مل سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق مخصوص نشستوں بارے تنازع کا مرکزی نقطہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی نظرثانی کی زیر التوا درخواست ہے۔

اس صورت حال میں جہاں ایک طرف ان مخصوص نشستوں کے معاملے پر قانونی تنازع جاری ہے، وہیں سیاسی سطح پر بھی پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے قیاس آرائیاں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹنے میں واضح طور پر دلچسپی رکھتی ہے۔ اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ مخصوص نشستوں بارے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کے کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ تاہم 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اس نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی آئینی بینچوں کے قیام کے فیصلے نے اس معاملے میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے رولز کے مطابق نظرثانی درخواست کی سماعت وہی بینچ کرے گا، جس نے پہلے فیصلہ دے رکھا ہو۔ اب جبکہ جسٹس فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائرڈ ہو رہے ہیں تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی جگہ کون لے گا۔

احسان فراموشوں کو نواز شریف کی خاموشی سے کیا تکلیف ہے؟

 قواعد کے مطابق، اگر کوئی جج ریٹائر ہو جاتا ہے تو سپریم کورٹ کی نامزدگی کمیٹی کے ذریعے کسی دوسرے جج ایسے مقدمے کی سماعت کیلئے نامزد کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد تشکیل پانے والے نئے آئینی بینچز اس کیس کو کس طرح نمٹائیں گے؟ کیونکہ نئی ترمیم کہتی ہے کہ اب تمام آئینی معاملات ان خصوصی بینچز کے سامنے سنے جائیں گے، نہ کہ عام فل کورٹ کے۔

تاہم ایسی صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد مخصوص نشستوں بارے نظر ثانی کی درخواست کون سنے گا؟ اس حوالے سے اکثریتی قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ  پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے نظرثانی درخواست کو وہی بینچ سنے گا، جس نے اصل کیس کی سماعت کی تھی، تاہم چند وکلا اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر احسن بھون کے مطابق ” اب سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت کے حوالے سے فیصلے کرنے والی کمیٹی یہ طے کرے گی کہ نظرثانی درخواست کون سنے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”سپریم کورٹ کے قواعد آئین کو نہیں بدل سکتے لیکن آئین قواعد کو بدل سکتا ہے۔ لہٰذا 26ویں ترمیم کے بعد معاملات بدل بھی سکتے ہیں۔‘‘

قانونی ماہرین کا یہ موقف مخصوص نشستوں بارےبحث میں ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتا ہے کہ حالیہ آئینی ترامیم کے پیش نظر نظرثانی درخواست کو کس طرح سے سنا جانا چاہیے۔ تاہم یہ موقف اس امر کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ شائد حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین ایک نئی قانونی جنگ شروع ہونے جا رہی ہے۔

تاہم حکومتی مخالفین جسٹس عیسیٰ کے تنقیدی ریمارکس اور عدلیہ میں آنے والی تبدیلیوں کے تناظر میں پی ٹی آئی کے لیے مستقبل میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے ممکنہ مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس صورت حال کو پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت چیلنج کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے

Back to top button