نئے چیف جسٹس کے خلاف PTI تحریک چلانے کی پوزیشن میں کیوں نہیں ؟

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وکلا رہنماؤں کی جانب سے جسٹس یحیی آفریدی کی بطور چیف جسٹس تقرری کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیے جانے کے باوجود اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وکلا ملکی سطح پر ایسی کوئی تحریک چلا پائیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ جسٹس آفریدی کو ایک قانونی طریقے سے ہونے والی آئینی ترمیم کے نتیجے میں چیف جسٹس بنایا گیا ہے اور قانون سازی منتخب پارلیمنٹ کا بنیادی حق ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے دو ماہ سے تحریک انصاف نے احتجاج یا جلسے جلوس کی جو بھی کال دی ہے وہ بری طرح ناکام ہوئی ہے۔

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وکلا رہنما بشمول حامد خان اور بیرسٹر گوہر خان اپنے کپتان عمران خان کی طرح چاہتے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ پاکستان کے نئے چیف جسٹس بنیں اور عمران خان کا سیاسی ایجنڈا اگے بڑھاتے ہوئے اتحادی حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کریں۔ تاہم حکومت نے یہ منصوبہ ناکام بناتے ہوئے آئین میں 26 ویں ترمیم کر ڈالی جس کے بعد چیف جسٹس کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر ہونے کی بجائے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوا جس نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو نیا چیف جسٹس آف پاکستان بنا دیا۔

26ویں آئینی ترمیم اپلائی کرنے کے لیے ایک اور ترمیم کیوں لانا پڑے گی؟

جسٹس یحییٰ آفریدی اپنی تقرری کے فورا بعد موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیمبر میں گئے، جہاں فائز عیسیٰ نے انہیں چیف جسٹس منتخب ہونے پر مبارک باد دی۔

بعد ازاں، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید نے جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی اور انہیں نامزدگی پر مبارکباد دی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بھی ان سے ملاقات کی۔

دوسری جانب، چیمبر ورک میں مصروف چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کا الوداعی فل کورٹ ریفرنس کمرہ عدالت نمبر ایک میں ہوگا۔

یاد رہے کہ اگر 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سینیارٹی کا قانون تبدیل نہ کیا جاتا تو جسٹس منصور علی شاہ بحیثیت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ملک کے نئے چیف جسٹس بن جاتے، تاہم اب چیف جسٹس کی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بہتر سمجھا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ عمرے کے لیے سعودی عرب روانہ ہو جائیں تاکہ انہیں جسٹس یحی آفریدی کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہ کرنی پڑے۔ وہ قاضی فائز عیسی کے فل کورٹ ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کر سکیں گے۔

ایسے میں تحریک انصاف کی وکلا قیادت نے جسٹس یحیی آفریدی کی نامزدگی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اسکے لیے حالات موافق نظر نہیں آتے۔ اگرچہ عمران خان سے ہمدردی رکھنے والے قانونی برادری کے بہت سے لوگ 26ویں ’آئینی ترمیم‘ سے خوش نہیں ہیں لیکن اسکے باوجود اس ترمیم یا نئے چیف جسٹس کے خلاف کوئی ملک گیر تحریک چلنے کے امکانات بہت کم ہیں کیوں کہ اس معاملے پر وکلا برادری بھی تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ ایک وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب جنرل پرویز مشرف نے 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کیا تو قانونی برادری متحد تھی جس کے نتیجے میں تمام معزول ججوں کی بحالی ہوئی لیکن اس بار وکلا برادری میں واضح تقسیم ہے کیونکہ 26 ویں ترمیم کی منظوری پر دونوں بڑے گروہ منقسم ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم پاکستان کی دو سب سے بڑی اور پرانی سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر مولانا فضل الرحمن سے مل کر کی ہے۔

پنکی پیرنی کی رہائی پر دوبارہ ڈیل کے چرچے کیوں ہونے لگے؟

عاصمہ جہانگیر سے منسلک آزاد پینل کے سربراہ احسن بھون نے نئے چیف جسٹس کی تقرری کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس آفریدی کی نامزدگی ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر نہیں ہوئے، ججوں کی کھلی جنگ کے ماحول میں جسٹس یحی آفریدی کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ ایک غیر متنازع جج ہیں اور ان کی تقرری ایک مثبت پیش رفت ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر احسن بھون نے مذید کہا کہ جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر انتہائی قابل جج ہیں، لیکن وہ پچھلے کچھ مہینوں سے بہت زیادہ متنازعہ ہو چکے تھے لہذا پارلیمانی کمیٹی نے آئین میں طے شدہ معیار کے مطابق ایک مکمل طور پر غیر متنازعہ جج کو چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ کیا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر شہزاد شوکت نے بھی جسٹس یحییٰ آفریدی کو بہترین ججز میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی تقرری مناسب آئینی طریقہ کار کی پیروی کرتی ہے۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے آڈیٹوریم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر حامد خان نے کہا کہ سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی نااہلی کی سزا پوری عدلیہ کو دی جا رہی ہے، وکلا نے آئینی ترامیم کو مسترد کر دیا۔

حامد خان نے نامزد چیف جسٹس کو مشورہ دیا کہ وہ عہدہ قبول کرنے کے بجائے اپنی باری کا انتظار کریں، کیونکہ اگر وہ موجودہ حالات میں اس کردار کو قبول کرتے ہیں تو لوگ انہیں منفی نظر سے دیکھیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ تیسرے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس مقرر کرنا عدلیہ کے اندر تقسیم پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے ملک میں حالیہ پیش رفت کو ’سیاہ ترین‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترامیم آئین اور عدلیہ پر حملہ ہیں۔ انہوں نے عدالتی تقرریاں سنیارٹی کی بنیاد پر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وکلا صرف سینئر ترین جج کو چیف جسٹس کے طور پر تسلیم کریں گے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ ترامیم آئینی نہیں بلکہ ’مارشل لا‘ کی ایک شکل ہیں، انہوں نے حکمراں جماعتوں پر الزام عائد کیا کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو ختم کرنے کے لئے سیاسی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں۔

تاہم لاہور، کراچی، راولپنڈی اور پشاور کی ایسوسی ایشنز نے جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ وہ عدالتوں کی آزادی، ساکھ اور سالمیت کو بحال کریں گے۔

Back to top button