یو اے ای نے پاکستانی بھکاری روکنے کے لیے 24 شہر بلیک لسٹ کر دیے
متحدہ عرب امارات نے پاکستان سے پیشہ ور بھکاریوں کی مسلسل یو اے ای آمد روکنے کے لیے 24 پاکستانی شہروں کو بلیک لسٹ کر دیا ہے، اب ان شہروں کے رہائشیوں کو متحدہ عرب امارات کے ویزے نہیں دیے جائیں گے۔
ان شہروں میں کوئٹہ، قصور، ساہیوال، سرگودھا، شیخوپورہ، ایبٹ آباد، اٹک، باجوڑ، چکوال، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو، ہنزہ، خوشاب، کوٹلی، کوہاٹ، کرم ایجنسی، لاڑکانہ، نواب شاہ، مہمند ایجنسی، مظفر گڑھ، پارا چنار، سکردو اور سکھر شامل ہیں، ان شہروں کو ایجنٹوں، ویزوں کے غلط استعمال اور جعل سازی کی وجہ سے بلیک لسٹ کیا گیا، اس طرح یو اے ای پہلا ملک بن گیا جس نے پاکستانی شہروں کو باقاعدہ بلیک لسٹ کر دیا ہے اور اب ان شہروں کے لوگوں کو دوبئی کا کسی بھی قسم کا ویزہ نہیں مل سکتا۔
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوھدری یہ انکشاف کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس وقت یو اے ای کی جیلیں پاکستانی گداگروں سے بھری پڑی ہیں چونکہ وہاں پر گداگری جرم ہے۔
پاکستانی بھکاری ایجنٹس کے ذریعے جعلی کاغذات پر ویزے لگواتے ہیں، یو اے ای اور سعودی عرب جاتے ہیں اور سال چھ مہینے کا سیزن لگا کر واپس آتے ہیں، خوب عیاشی کرتے ہیں اور پھر دوبارہ بھیک کے لیے جہاز پر سوار ہو جاتے ہیں۔
چونکہ وہاں گداگری جرم ہے لہٰذا پولیس نے انہیں گرفتار کرنا شروع کیا تو پاکستانی بھکاریوں سے جیلیں بھر گئیں، سعودی عرب اور یو اے این نے یہ مسئلہ پاکستان کے سامنے اٹھایا، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
اس دوران بھکاریوں کی تعداد تین چار گنا ہوگئی یہاں تک کہ دوبئی نے پاکستان کے ویزوں پر پابندی لگا دی اور سعودی عرب نے ویزے سخت کر دیے۔
اب دوبئی چھ ماہ سے کسی پاکستانی کو ویزے نہیں دے رہا، ہمارے فیڈرل سیکریٹریز تک کے ویزے ری جیکٹ ہو چکے ہیں، پوری دنیا ای ویزہ اور ویزہ آن ارائیول پر دوبئی جاتی ہے جب کہ پاکستانیوں کو ایمبیسی سے ویزہ ملتا ہے اور نہ دوبئی سے، ہمارے ارب پتی بزنس مینوں کو بھی انکار ہو رہا ہے۔ دوبئی اب صرف میاں بیوی کو ویزے دیتا ہے اور ان دونوں کو اکٹھا سفر کرنا پڑتا ہے، یہ اگر الگ الگ سفر کریں تو انہیں ڈی پورٹ اور جھوٹا ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے جس کے بعد یہ اگلے ویزے کے لیے نااہل ہو جاتے ہیں۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ دوبئی حکومت کا خیال تھا پاکستان ان پابندیوں پر ان سے رابطہ کرے گا، نئے ایس او پیز بنائے گا اور بھکاریوں کے سفر پر پابندی لگائے گا جس کے بعد پاکستانیوں کے ویزے دوبارہ شروع ہو جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا، یوں یہ مسئلہ مزید الجھ گیا یہاں تک کہ 14 اکتوبر کو دوبئی نے پاکستان کے 24 شہروں کو ویزوں کے لیے بلیک لسٹ کر دیا۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ پاکستانی ائیر پورٹس پر روزانہ جعلی پااسپورٹس، جعلی ویزوں اور جعلی گرین کارڈ ہولڈرز گرفتار ہوتے ہیں، ائیرپورٹس پر روزانہ منشیات بھی پکڑی جاتی ہیں اور اب بھکاری بھی نکل آتے ہیں، ہمارا پاسپورٹ دنیا میں اس قدر بدنام ہو چکا ہے کہ ہم جس ائیرپورٹ پر بھی اترتے ہیں ہمیں سائیڈ پر کھڑا کر دیا جاتا ہے اور ہمارے پاسپورٹ کا ایک، ایک صفحہ مل مل کر چیک کیا جاتا ہے، ہمارے سامان کی تلاشی بھی خصوصی طور پر لی جاتی ہے۔
جاوید چوھدری بتاتے ہیں کہ مجھے ایک بار پی آئی اے کے ذریعے اٹلی کے شہر میلان جانے کا اتفاق ہوا، میں نے وہاں عجیب منظر دیکھا، ہم لوگ جوں ہی جہاز کے گیٹ سے نکلے سامنے پولیس کتوں کے ساتھ کھڑی تھی،کتے پہلے مسافر کو سونگھ کر پوری تسلی کرتے تھے اور اس کے بعد مسافر کو لاؤنج اور امیگریشن ہال کی طرف جانے دیا جاتا تھا، میں نے دنیا کی کسی دوسری قوم کو اس ذلت سے گزرتے نہیں دیکھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ مجھے اسی طرح فجی جانے کا بھی اتفاق ہوا، میں نیوزی لینڈ سے نادی گیا تھا، میں اس فلائیٹ میں واحد پاکستانی تھا، فجی امیگریشن نے کسی مسافر کو نہیں روکا، لوگ کاؤنٹر پر جاتے، وہ پاسپورٹ دکھاتے اور تین سیکنڈ میں نکل جاتے تھے۔ لیکن مجھے روک لیا گیا اور دو گھنٹے انٹرویو کیا گیا، مجھے ماسکو میں بھی ڈھائی گھنٹے ائیرپورٹ پر بیٹھنا پڑا، مجھے تیونس میں بھی روکا گیا اور دو مرتبہ امریکا میں بھی، میرے ساتھ یہ واقعات اتنی مرتبہ ہو چکے ہیں کہ میں اب ان کا عادی ہو چکا ہوں، میں کاؤنٹر پر جاتا ہوں اور ان سے سیدھا پوچھ لیتا ہوں، مجھے آپ کے پاس کتنی دیر بیٹھنا ہے اور کہاں بیٹھنا ہے، میں بعض اوقات ان سے کافی بھی مانگ لیتا ہوں اور یہ سن کر عموماً امیگریشن آفیسرز کی ہنسی نکل جاتی ہے۔
نئے چیف جسٹس کے خلاف PTI تحریک چلانے کی پوزیشن میں کیوں نہیں ؟
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ یہ اس شخص کی صورت حال ہے جو 118 ملک گھوم چکا ہے اور اس کے پاسپورٹ پر مہر لگانے کی جگہ نہیں ہوتی، آپ باقی پاکستانیوں کی صورت حال کا اندازہ خود کر لیجیے۔ انکے مطابق ہمارے دو ایشوز ہیں، ایک، دنیا بھر میں ہمارے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے اور دوسرا ہمیں اس پر شرم بھی نہیں آتی، دوسرا ایشو پہلے ایشو سے زیادہ خوف ناک ہے، ہم اگر واقعی ملک کو بدلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں شرم سے اسٹارٹ لینا ہو گا، ہمیں پہلے شرم آنی چاہیے، آپ یقین کریں ہمیں جس دن شرم آ جائے گی ہم اس دن چیزوں کو ٹھیک کرنا شروع کر دیں گے مثلاً ہم ویزوں کا مسئلہ بڑی آسانی سے حل کر سکتے ہیں۔
ان کے بقول حکومت کو چاہیے کہ نادرا میں ایک ویزہ کوالی فکیشن سیکشن بنا دے، نادرا کے پاس پورے ملک کا ڈیٹا موجود ہے، یہ اس ڈیٹا کی بنیاد پر بیرون ملک سفر کی پانچ کیٹگریز بنا دے، یہ کیٹگریز تعلیم، عمر، فنانشل اسٹیٹس، ٹیکس، پراپرٹی اور ٹریول کی بنیاد پر بنائی جائیں اور مسافروں کو ون سے لے کر فائیو تک اسٹار دے دیے جائیں۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان کا جو بھی شہری کسی ملک کا ویزہ اپلائی کرے اس کے لیے لازم ہو وہ پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور فیملی سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل ٹریول کوالی فکیشن سرٹیفکیٹ بھی جمع کرائے، سفارت خانے دوسرے ڈاکومنٹس کے ساتھ نادرا سے یہ سر ٹیفکیٹ بھی تصدیق کرا لیں جس کے بعد پاکستانیوں کو ویزے جاری کر دیں ، اس سے ویزہ ریجیکشن کے کیسز میں بھی کمی آئے گی اور پاکستان کی بدنامی بھی نہیں ہو گی، اسی طرح ملازمت کے لیے بیرون ملک جانے والے ہنر مندوں کے لیے بھی یہ سرٹیفکیٹ لازم ہونا چاہیے، نوجوان نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ پروفیشنل تربیت یا تعلیم کہاں سے لی اور اپنے شعبے یا پیشے میں اس کی اہلیت کا معیار کیا ہے؟ یہ تصدیق بھی نادرا کے ذریعے ہونی چاہیے۔
جاوید چوھدری کہتے ہیں کہ اسی طرح میڈیکل سرٹیفکیٹ اور پولیس ویری فکیشن سرٹیفکیٹ بھی نادرا سے جاری ہونے چاہئیں، اس سے دو فائدے ہوں گے، مسافروں کو ایک ونڈو پر سب کچھ مل جائے گا، انہیں مختلف دفتروں میں دھکے نہیں کھانے پڑیں گے اور دوسرا سفارت خانوں کو بھی کاغذات کی تصدیق کے لیے دس بیس دفتروں سے رابطہ نہیں کرنا پڑے گا یوں مسافر اور سفارت خانے دونوں کا وقت اور وسائل بچ جائیں گے۔ پاکستان ایک شان دار ملک ہے لیکن ہم نے بدقسمتی سے اس کا امیج برباد کر دیا ہے، ہم اب بھی چند قدم اٹھا کر اس کا امیج بہتر بنا سکتے ہیں،۔