بطور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم فیصلے

چیف جسٹس قاضی عیسیٰ 25 اکتوبر 2024 کو  اپنی مدت ملازمت پوری کر کے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل یعنی جمعرات کو انہوں نے 10 مقدمات کی سماعت کی جن میں سے 4 میں فیصلہ دیاگیا اور 6 کی سماعت ملتوی کی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خیبرپختونخواہ میں شیشم کے درختوں کی کٹائی سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتےہوئے خیبرپختونخوا حکومت کےوکیل کو توجہ دلائی کہ آئینی اداروں کےلیے معزز اور عزت مآب جیسے الفاظ استعمال نہ کیاکریں۔

انہوں نےکہا کہ آئینی اداروں کےلیے وہی الفاظ استعمال ہونےچاہییں جو آئین میں لکھےہوئے ہیں۔ پھر ساتھ ہی انہوں نےکہا کہ بس ایک دن کےلیے برداشت کرلیں۔ بطور چیف جسٹس وہ اکثر ایسے ٹائٹلز کی حوصلہ شکنی کرتے رہے۔ایک بار سردار لطیف کھوسہ سے کہاکہ یہ سردار کیا ہوتا ہےجس پر انہیں سوشل میڈیا ٹرولنگ کا سامنا بھی رہا۔

اگر دیکھاجائے تو چیف جسٹس کا آخری قابل ذکر فیصلہ ان کا وہ اختلافی نوٹ ہے جو انہوں نے مخصوص نشستوں والےمقدمے میں دیا جس میں انہوں نےمفصل طور پر ان وجوہات کا ذکر کیاکہ ان کا فیصلہ 8 اکثریتی ججوں سے کیوں کر مختلف تھا۔ اس فیصلےمیں انہوں نے 8 ججز کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

اسی مقدمے کی ایک سماعت پر انہوں نے عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ وہ عدالت نہیں جس میں 40، 50 سماعتیں ہوا کرتی ہیں، ہم دوسری تیسری سماعت پر فیصلہ کردیتے ہیں۔اس بات سے ان کا اشارہ غالباً سابقہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں نیب ترامیم مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کی طرف تھا جس نےاس مقدمے کی کم و بیش 52 سماعتیں کی تھیں۔

موجودہ چیف جسٹس کی جانب سے جلد فیصلوں کا تسلسل آرٹیکل 63 اے کے مقدمے میں بھی نظر آیا جب پیر کے روز نظرثانی سماعت شروع ہوئی اور جمعرات کو چوتھی سماعت پر بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے نظرثانی اپیلیں منظور کرلیں اور 63 اے پر جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ کا 17 مئی 2022 کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔

17 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کےبعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عام نوعیت کےکئی فیصلے کیے جن میں زیادہ کا تعلق خواتین کےحق وراثت سے تھا۔

کئی ایسےمقدمات میں انہوں نے بیوہ اور یتیم خواتین کو جائیداد میں حصہ نہ دینے اور مقدمے بازی کو طول دینے پر ان کے رشتے داروں کو جرمانے کیے لیکن یہ مقدمات شاید اس نوعیت کے نہیں ہوتےجو مشہور ہوسکیں کیوں کہ مشہور ہونے والے زیادہ تر فیصلے سیاسی جماعتوں سے متعلق ہوتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے منصب سنبھالنےسے اب تک پی ٹی آئی ان کی سربراہی میں مقدمات کے ہونے والے بیشتر فیصلوں سے ناخوش نظر آئی وہ نیب ترامیم کیس ہو یا آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ۔ لیکن اس ناراضی میں زیادہ شدت 13 جنوری 2024 کے اس فیصلے سے آئی جس کی رو سے پی ٹی آئی کو اس کے انتخابی نشان بلے سے محروم کیا گیا۔

عمران خان ایسی کئی درخواستیں دائر کرچکے ہیں کہ ان سے متعلق تمام مقدمات ایسے بینچ کے سامنے سماعت کےلیے نہ مقرر کیے جائیں جس کی سربراہی چیف جسٹس کر رہے ہوں۔ اسی طرح سے عمران خان کے وکلا بھی کئی مقدمات میں چیف جسٹس پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔

12 جولائی کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والی 13 رکنی فل کورٹ نے ایک مختصر 8،5 کے اکثریتی فیصلے کے ذریعے قرار دیا تھا کہ 8 فروری انتخابات میں جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کردہ پارٹی ٹکٹس جمع کروائے تھے ان کا تعلق پی ٹی آئی ہی کے ساتھ ہے اور ان 39 اراکین کو آزاد امیدوار خیال نہیں کیا جائے گا جب کہ 41 امیدوار 15 روز کے اندر پی ٹی آئی یا کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جس کی ان کے علاوہ 7 دیگر ججز نے حمایت کی اور چیف جسٹس اقلیتی فیصلے کا حصہ تھے۔ اس فیصلے پر حکومت کی نظرثانی اپیلیں تاحال زیرالتوا ہیں لیکن وفاق کی اتحادی حکومت الیکشن ایکٹ میں ترمیم کےذریعے اس فیصلے کو عملا غیرمؤثر کر چکی ہے۔

اس سے قبل 6 ستمبر 2024 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنےوالے 5 رکنی بینچ نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو منظور کرلیا۔

اس سے قبل سابقہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے 15 ستمبر 2023 کو یہ ترامیم کالعدم قرار دےدی تھیں جس پر وفاقی حکومت نے عد میں نظرثانی اپیلیں دائر کی تھیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فل کورٹ ریفرنس سے خطاب

9 جولائی 2024 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سماعت کرنےوالے 9 رکنی بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر تفصیلی فیصلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے مقدمے میں آئینی و قانونی ضابطے پورےنہیں کیے گئے تھے اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق دیاگیا اور مارشل لا ادوار میں عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر پاتیں۔

8 فروری عام انتخابات سے قبل 13 جنوری 2024 کو چیف جسٹس سربراہی میں سماعت کرنے والے 3 رکنی بینچ نے 12،13 گھنٹے کی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو اس کے انتخابی نشان بلے سے اس بنا پر محروم کردیا تھا کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کرانے کا کوئی ثبوت عدالت میں جمع نہیں کراسکی۔

طویل سماعت کےدوران پی ٹی آئی کو متعدد مواقع فراہم کیے گئے کہ وہ انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے کوئی ثبوت عدالت میں جمع کرائےلیکن وہ ایسا نہ کرسکی جس کے بعد مذکورہ فیصلہ سنادیا گیا جس کے بعد سپریم کورٹ اور خاص طور پر چیف جسٹس کو پی ٹی آئی کی جانب سے شدید ترین تنقید کا سامناکرنا پڑا۔

22 اگست 2024 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنےوالے سپریم کورٹ کے بینچ نے توہین مذہب کے الزام میں انڈر ٹرائل ملزم مبارک ثانی کے فیصلے میں ترمیم کی۔ 6 فروری کو مبارک ثانی کی درخواست ضمانت کی فیصلےکی وجہ سے ملک کی مذہبی جماعتوں میں شدید بےچینی پیدا ہوئی۔ جس کےنتیجے میں سپریم کورٹ کےخلاف بہت سے احتجاج بھی ہوئے۔اس مقدمے کے نظرمثانی فیصلے کے خلاف بھی کافی احتجاج ہوئےیہاں تک کہ 22 اگست کو سپریم کورٹ نے اپنے نظر ثانی شدہ فیصلے میں بھی ترمیم کردی۔

10 اپریل 2022 کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور پی ٹی آئی کی جانب سے قبل از وقت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کا انعقاد خاصہ مشکل نظر آتا تھا۔یہاں تک کہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ کےاپریل 2023 اور بعد ازاں 14 مئی 2023 کے احکامات کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔

الیکشن کمیشن نے اس وقت سپریم کورٹ کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس نہ تو مالی وسائل ہیں اور نہ ہی سکیورٹی کے انتظامات کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن چیف جسٹس کا منصب سنبھالتے ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کو احکامات جاری کیے کہ ہر صورت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ابتدائی طور پر 12 فروری جبکہ صدر مملکت عارف علوی سے مشاورت کےبعد 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اکثر جمہوریت کے بارےمیں بات کرتےہوئے یہ ریمارکس دیتے ہیں کہ ہم نے تو 12 دنوں میں انتخابات کرائے تھے۔ عمران خان کی نیب ترامیم مقدمے میں آن لائن پیشی کے موقع پر بھی چیف جسٹس نے ان کے سامنے اس بات کا ذکر کیا۔

12 اکتوبر 2023 کو چیف جسٹس کی سربراہ میں سماعت کرنے والی فل کورٹ نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو منظور کر لیا۔ جب کہ اس سے قبل جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں ایک بینچ نے اس ایکٹ پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔ اس ایکٹ میں دیگر چیزوں کےساتھ ساتھ اہم چیز یہ تھی کہ ازخود اختیارات اور بینچوں کی تشکیل سے متعلق معاملات کو چیف جسٹس کی بجائے 3 رکنی کمیٹی کے حوالےکیا گیا تھا۔

سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق مقدمے کی سماعت کےلیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود کی سربراہی میں ایک بینچ تشکیل دیا جس نے 12 دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ کے گزشتہ فیصلے کو معطل کرتےہوئے 9 مئی کے سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اس شرط پر اجازت دی کہ ان مقدمات کے حتمی فیصلے جاری نہیں کیےجائیں گے۔ لیکن اس مقدمے کا اب تک حتمی طور پر فیصلہ نہیں ہو پایا۔

Back to top button