موبائل فون،وی لاگ اور نیوز اینکر، نئے چیف جسٹس کا فیورٹ کون؟

پاکستان کے تیسویں چیف جسٹس،  مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی کروڑوں لوگوں کے برعکس  نہ تو سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں ،  نہ سوشل میڈیا سے انہیں کوئی دلچسپی ھے اور نہ وہ  وی لاگز اور نیوز چینلز دیکھنے کے شوقین ہیں۔

قسمت کے دھنی قرار پانے والے نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی ذاتی زندگی کے حوالے سے سامنےآنے والے حقائق بھی عوامی دلچسپی سے خالی نہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کے قریبی رفقاء کے مطابق نامزد چیف جسٹس جہاں سادہ اور ہنس مکھ طبیعت کے مالک ہیں وہیں وہ اقرباء پروری، اپنے عہدے کے غلط استعمال اور نام کی تشہیر کے سخت مخالف ہیں۔ سینئر صحافی عمر چیمہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی کے بارے میں جہاں اچھی باتیں سننے کو مل رہی ہیں وہیں میڈیا کیلئے ایک بری خبر یہ ہے۔ کہ نامزد چیف جستس یحییٰ آفریدی مختلف صحافیوں کے وی لاگ تو کجا وہ نیوز چینلز بھی نہیں دیکھتے۔ حتیٰ کہ جسٹس یحییٰ آفریدی سوشل میڈیا بھی استعمال نہیں کرتے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی سمارٹ فون کی بجائے سادہ فون استعمال کرتے ہیں۔ جسٹس آفریدی فرصت کے اوقات میں غیر ملکی فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں، پولو اور گالف کے شوقین ہیں اور اسی لیے ان سے متعلق ویڈیوز بھی دیکھتے ہیں۔نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا اپنے آبائی گاؤں سے گہرا تعلق ہے اور وہ کھیتی باڑی کے شوقین ہیں

عمر چیمہ کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی نےاپنے بیٹے کو قانون کی پریکٹس شروع کرتے وقت تین اصول سکھائے: انھوں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ ایماندار پیشہ ور بنو، میرا نام کبھی استعمال نہیں کرنا، جب کوئی وکیل بدتمیزی کرے تو ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کرنا ہے، اور اپنے مؤکل سے زیادہ فیس نہیں لینی۔ عمر چیمہ کے مطابق اگلے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے تین صاحبزادے ہیں اور ان میں سے ایک بیرسٹرہیں۔ جسٹس آفریدی چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا سول سروس جوائن کرے لیکن ان کے بیرسٹر بیٹے اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے پر بضد تھے۔ جسٹس آفریدی کا بیرسٹر بیٹا پشاور میں پریکٹس کرتا ہے۔ زیادہ تر آئینی اور بینکنگ کے معاملات دیکھتا ہے۔ ان کے خاندان کے ایک فرد نے جسٹس آفریدی کے بیٹے کو درپیش سب سے بڑے چیلنج کو یوں بیان کیا کہ ’’بعض اوقات کلائنٹس جسٹس آفریدی کا بیٹا ہونے کی وجہ سے اُن کی خدمات حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ انکار کر دیتے ہیں۔‘‘جسٹس آفریدی کا ایک بیٹا قانون کے پیشے سے وابستہ ہے جبکہ دوسرا ڈاکٹر اور تیسرا ہوٹل مینجمنٹ کے شعبے سے وابستہ ہے۔

عمر چیمہ کے مطابق جسٹس آفریدی کے بچوں کیلئے جسٹس منصور علی شاہ، منصور چچا ہیں کیونکہ جسٹس آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ کی دوستی ان کے کالج کے زمانے سے ہے اور وہ ایک دوسرے کیلئے فیملی جیسے ہیں۔ اگرچہ دونوں جج ایچی سن کالج سے فارغ التحصیل ہیں لیکن  دونوں کلاس فیلوز نہیں تھے۔ تاہم، دونوں کے درمیان روابط پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج میں قائم ہوئے۔ دونوں نے 1988ء میں وہاں سے گریجویشن کیا تاہم ان کے سیکشنز مختلف تھے۔ جسٹس آفریدی کے سیکشن میں پڑھنے والے ایک نامور وکیل شاہ خاور کے مطابق، جسٹس منصور علی شاہ سیکشن اے جبکہ جسٹس آفریدی سیکشن ڈی میں ہوتے تھے۔ انہوں نے پرانا وقت یاد کرتے ہوئے مذاقاً کہا کہ ہم ایک طرح کے بیک بینچر تھے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نااہل تھے بلکہ ہم پڑھائی اور تفریح دونوں میں اچھے تھے۔ انہوں نے جسٹس آفریدی کو ایک خوش مزاج اور تفریح پسند شخص قرار دیا۔  شاہ خاور کے مطابق جسٹس آفریدی ایک کھرے اور بہت کھلے ذہن کے مالک ہیں جو ہمیشہ مزید جاننے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ وہ وکیلوں کیلئے ایک اچھے سامع ہیں جو اپنی عدالت میں بہت پرسکون محسوس کرتے ہیں۔

جسٹس آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ دونوں آفریدی، شاہ اینڈ من اللہ لاء فرم میں مل کر کام کرتے تھے فرم کے تیسرے پارٹنر اطہر من اللہ کو بھی عدلیہ میں شامل کیے جانے کے بعد فرم نے اپنے آپریشنز ختم یا منجمد کر دیے۔

عمر چیمہ کے مطابق جسٹس آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے، دونوں سرکاری ملازمین کے بیٹے ہیں۔ دونوں کے والد مختلف ادوار میں صوبے کے چیف سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ جسٹس آفریدی کے والد عمر آفریدی وزیراعظم معراج خالد کی عبوری حکومت میں وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ جسٹس آفریدی کے دادا منور خان آفریدی پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے علاوہ خیبر میڈیکل کالج پشاور کے بانی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر منور آفریدی طب کے شعبے سے وابستہ تھے اور انہوں نے برطانوی فوج میں خدمات انجام دیں اور دوسری جنگ عظیم کے دوران فوجی جوانوں کو ملیریا سے بچانے کیلئے ان کی خدمات پر انہیں برطانوی فوج کے کمانڈر کے خطاب سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے عالمی ادارہ صحت میں بھی خدمات انجام دیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 30ویں چیف جسٹس نامزد ہونے والے جسٹس یحییٰ آفریدی کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ سے ہے۔ ان کا آبائی گاؤں کوہاٹ کا مضافاتی علاقہ بابری بانڈہ ہے جو کوہاٹ شہر سے 15 کلومیٹر دور شمال کی جانب واقع ہے۔

جسٹس منصور شاہ سپریم کورٹ میں اپنی الگ عدالت لگانے پر بضد کیوں ؟

بابری بانڈہ کے عمائدین کے مطابق جسٹس آفریدی کا خاندان بابری بانڈہ میں ہی سکونت اختیار کیے ہوئے ہے تاہم جسٹس یحییٰ آفریدی کی پیدائش ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوئی تھی۔

جسٹس آفریدی کے رشتہ داروں کے مطابق جسٹس یحیٰی آفریدی 3 بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ ان کے 3 بیٹے ہیں اور تینوں شادی شدہ ہیں۔ چھوٹے بیٹے کی شادی سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا امیر حیدر خان ہوتی کی بیٹی سے ہوئی ہے۔علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے بیٹوں کی شادی اپنے گاؤں میں علاقائی روایات کے عین مطابق کی۔

یونین کونسل بابری بانڈہ کے چیئرمین اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے کزن طارق محمود آفریدی کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی مہینے میں دو، تین بار اپنے گاؤں ضرور آتے ہیں اور اپنے حجرے میں علاقہ مکینوں، رشتہ داروں اور مشران سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی علاقے کے اجتماعی مسائل کے حل پر بھی توجہ دیتے ہیں اور نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ہ نامزد چیف جسٹس اپنے گاؤں میں سینکڑوں درخت بھی لگا چکے ہیں جبکہ کھیتی باڑی کا شوق ہونے کی وجہ سے باقاعدگی کے ساتھ اپنی زمینوں کا چکر بھی لگاتے ہیں۔

دوسری جانب مبصرین کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی کا قسمت کا دھنی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ صرف دو ماہ پہلے جولائی تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب نئے چیف جسٹس ہوں گے۔ اب دیکھیں کہ قسمت نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ قسمت کا کھیل دیکھیں کہ جنہوں نے ان سے پہلے چیف جسٹس بننا تھا وہ اس عہدے پر پہنچنے کے لیے جو جدوجہد کررہے تھے‘ وہی ان کے خلاف گئی۔ اگر جسٹس اعجاز الاحسن نے استعفیٰ نہ دیا ہوتا تو وہ آج چیف جسٹس ہوتے۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس بننا تھا‘ لیکن جسٹس منصور بھی جلدی میں تھے اور 12جولائی کو ایک ایسا فیصلہ سنا بیٹھے جس نے سب کو چونکا دیا۔ اب اگلا انتخاب جسٹس منیب ہو سکتے تھے لیکن عدالت کے اندر تقسیم کے تاثر کی وجہ سے جو حالات بن چکے تھے‘ ان سے واضح تھا کہ عدالتی ترامیم کے بعد جسٹس منیب بھی چیف جسٹس نہیں بنیں گے۔ یوں وہ جج صاحب‘ جنہیں علم تھا کہ انہوں نے شاید چیف جسٹس بنے بغیر ہی ریٹائرڈ ہو جانا ہے اور ان کا دور دور تک چیف جسٹس بننے کا چانس نہیں تھا‘ انہیں اچانک پتا چلتا ہے کہ وہ چیف جسٹس بن گئے ہیں۔ یعنی جو اس دوڑ میں ہی شامل نہ تھا‘ وہ اول آگیا۔

Back to top button