اجتماعی استعفوں کی تجویز پر پی ٹی آئی میں اختلافات

وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد حکومتی اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے اجتماعی استعفے دینے کی تجویز پر اختلافات پیدا ہو گئے ہیں. تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی زیرصدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی کی اکثریت نے استعفی دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کا حصہ رہتے ہوئے مخالفین کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔

قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کی تجویز بنیادی طور پر عمران خان نے خود دی تھی اور اس پر انہوں نے نواز شریف کے دور حکومت میں بھی عمل کیا تھا جب وہ اپنے اراکین اسمبلی سمیت مستعفی ہوگئے تھے، لیکن موصوف نے نواز حکومت گرانے میں ناکامی کے بعد استعفے واپس لے لیے تھے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ استعفوں کے بعد نئی حکومت کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا اور وہ جلد الیکشن کرانے پر مجبور ہوجائے گی۔

تاہم دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ کم ازکم ایک درجن وفاقی وزرا سمیت 72 سے زائد حکومتی اراکین قومی اسمبلی نے استعفے دینے کی مخالفت کر دی جس کے بعد وزیراعظم پریشانی کا شکار ہیں کیونکہ اگر وہ اس پر اصرار کرتے ہیں تو پارٹی ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔

حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر اراکین اسمبلی کا یہ موقف ہے کہ انکے استعفوں کے باجود نئی حکومت کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی، انکا کہنا تھا کہ استعفوں کی صورت میں تو انکے مخالفین کے لیے اور بھی زیادہ آسانی پیدا ہو جائے گی اور وہ خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کروا کر اپنی حکومت چلاتے رہیں گے۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے 8 اپریل کو بنی گالہ میں منعقد ہونے والے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں زیادہ تر ارکان کی رائے اجتماعی استعفوں کے خلاف تھی جس کے بعد یوں لگتا ہے کہ عمران کے ہاتھ سے استعفوں کا کارڈ نکل چکا ہے۔ تاہم شیخ رشید اور فواد چوہدری جیسے عمران خان کے کچھ ساتھیوں کا یہ موقف ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے 60 یا 70 اراکین بھی استعفیٰ دے دیں تو مقصد پورا ہو جائے گا۔

لیکن سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اجتماعی استعفوں سے پی ٹی آئی کو زیادہ فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوسکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اگر عمران کے ساتھی استعفے دے بھی دیں تو پارلیمنٹ چل سکتی ہے اور نئی حکومت ضمنی الیکشن کا اعلان کر کے نظام چلا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے لیے وقت آ گیا ہے کہ اب صرف سیاست کا نہ سوچیں ملک کا بھی سوچیں۔ اگر عدم استحکام پھیلایا تو ان کو بھی نقصان ہوگا۔ ملک کو بھی معاشی نقصان ہوگا۔

انکے مطابق پی ٹی آئی کو اپوزیشن میں بیٹھ کر آگے کا سوچنا چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ اینٹی امریکہ بیانیے کا چورن اب بکنے والا نہیں اور نہ ہی پاکستان میں اینٹی امریکہ انقلاب آسکتا ہے کیونکہ ہمارا سارا نظام ہی امریکہ کے سر پر چلتا یے۔ اس کے علاوہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے سٹریٹجک مفادات بھی امریکہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور شاید اسی لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے بیرونی سازش کے نظریے کی حمایت نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان نے استعفوں سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش تو یہ ان کی سیاسی ناپختگی کو مزید واضح کر دے گا۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے آئین کے مطابق چیئرمین نیب، نگراں وزیر اعظم سمیت چند اہم تعیناتیاں اپوزیشن کے مشورے سے کرنا ہوتی ہیں۔ اگر اجتماعی استعفے دے دیے جائیں تو ایوان میں موجود پی ٹی آئی کے منحرف اراکین پر مبنی دھڑا اپنا گروپ بنا کر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ سکتا ہے اور پی ٹی آئی کو مکمل طور پر مشاورت کے عمل سے باہر کیا جاسکتا ہے۔

اس لیے سیاسی تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے کہ اجتماعی استعفے دینا پی ٹی آئی کے لیے احمقانہ پالیسی ہوگی اور یہ اپوزیشن کو واک اوور دینے کے مترادف ہوگا۔ ان کے خیال میں اگر عمران خان قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کا حتمی فیصلہ کر لیتے ہیں تو زیادہ تر اراکین اسمبلی منحرف اراکین کے ساتھ جا ملیں گے کیونکہ بار بار الیکشن میں حصہ لینا اور جیتنا آسان نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کے مطابق اگر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی استعفی دے دیتے ہیں تو حکومت ان حلقوں میں ضمنی الیکشن کا اعلان کر سکتی ہے، ایسے میں استعفیٰ دینے والوں کو کوئی فائدہ تو نہیں ہو گا البتہ نقصان ضرور ہو گا۔ لیکن ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اجتماعی استعفوں کی صورت میں کیا الیکشن کمیشن 100 کے قریب حلقوں میں ضمنی انتخابات کروانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اس حوالے سے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن مرحلہ وار گروپوں کی شکل میں 50، 60 حلقوں میں ضمنی الیکشن کروا سکتا ہے۔

سینیٹر فیصل جاوید کو اسمبلی ہال سے نکال دیا گیا

اس کام کے لیے اس کے پاس فنڈز اور صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اگر ضرورت پڑے تو اسے اضافی گرانٹ بھی مل سکتی ہے کیونکہ اسے وسائل مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کی نوبت مشکل ہی آئے گی کیونکہ اپوزیشن وزیراعظم کی تبدیلی کے بعد اپنا سپیکر لائے گی اور نیا سپیکر استعفوں کو قبول کرنے کے عمل کو طول دے سکتا ہے جیسا کہ 2014 میں ایاز صادق نے کیا تھا، جب انہوں نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور نہیں کیے تھے۔

کنور دلشاد کے مطابق سپیکر کہہ سکتا ہے کہ تمام ارکان سے استعفوں کی ایک ایک کر کے تصدیق کرنی ہے پھر ان کے استعفے الیکشن کمیشن کو بھیجنے کے عمل کو طول دیا جاسکتا ہے۔ لہذا عمران خان کی جانب سے استعفوں کی آپشن پر عمل کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔

Disagreements in PTI over proposal collective resignations video

Back to top button