عمران خان فوج سے لڑنا چاہتے ہیں یا صرف ڈیل کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں؟
ایکسپریس ٹیلی ویژن سے وابستہ سینیئر اینکر پرسن اور صحافی جاوید چوھدری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک یہ واضح نہیں ہو پایا کہ عمران خان کا سیاسی ایجنڈا دراصل ہے کیا اور وہ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ کنفیوژن یہ یے کہ کیا عمران واقعی فوج سے لڑنا چاہتے ہیں یا فوجی قیادت پر تنقید کے نشتر برسا کر اس پر ڈیل کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ ماضی کی طرح انہیں دوبارہ گود لے کر اقتدار دلوا دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان واقعی فوج کے سیاسی کردار کے مخالف ہیں تو پھر جیل جانے کے بعد سے وہ مسلسل حکومت کی بجائے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ہی مذاکرات پر کیوں اصرار کر رہے ہیں۔ کیا ایسا تو نہیں کہ عمران کو سیاست میں فوج کے کردار پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اقتدار اپوزیشن کی بجائے ان کے پاس ہو۔
اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ان کی اکثر چلتے پھرتے اسلام اباد میں تحریک انصاف کے سپورٹرز سے ملاقات ہو جاتی ہے جو ان سے ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ اپ عمران خان کے خلاف کیوں ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ میں عمران کے لیے ہمدردی رکھنے والوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ میں تو خود ان کا بہت بڑا سپورٹر ہوں لیکن ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ اپنی سیاست بارے پھیلی ہوئی کنفیوژن کا خاتمہ کریں۔ سینیر صحافی کہتے ہیں کہ پچھلے دنوں ان کی ایسے ہی ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جس نے مجھ سے عمران مخالف ہونے کا گلا کیا۔ میں نے جواب میں اسے بتایا کہ دراصل مجھے ان کے کپتان کی فلاسفی سمجھ نہیں آ رہی‘ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں آخر عمران خان چاہتا کیا ہے؟ مجھے اگر کوئی شخص یہ سمجھا دے تو میں فوراً اڈیالہ جیل کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ جاؤں گا اور جب تک عمران رہا نہیں ہوتا میں وہاں بیٹھا رہوں گا‘‘۔ نوجوان ہنس کر بولا ’’عمران خان کا مطالبہ بہت سادہ ہے‘ وہ حقیقی آزادی چاہتا ہے‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا ’’کس سے‘ کیا یہ اسٹیبلشمنٹ سے آزادی چاہتا ہے‘ کیا وہ عدلیہ یا پارلیمنٹ یا پھر امریکا سے آزادی چاہتا ہے‘ وہ کس سے آزاد ہونا چاہتا ہے؟‘‘ اس ہر نوجوان نے مسکرا کر جواب دیا کہ خان اصل میں ’’امریکا اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے آزادی چاہتا ہے‘‘۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ انہوں نے جواب میں قہقہہ لگایا اور عرض کیا کہ ’’پھر عمران جیل میں بیٹھ کر امریکی اخبارات میں مضامین اور انٹرویوز کیوں چھپوا رہا ہے۔ وہ امریکی کانگریس کی قرارداد اور 60 کانگریس مین کے امریکی صدر کے نام خط پر خوش کیوں ہو رہا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ آپ نے جس سے آزادی لینی ہو کیا آپ کبھی اس سے مدد لیں گے؟ جب کہ عمران امریکا کی مدد سے امریکا سے آزادی چاہتا ہے۔ دوسرا آپ کس اسٹیبلشمنٹ سے آزادی چاہتے ہیں؟ یہ اسٹیبلشمنٹ تو عمران کی ساتھی تھی‘ ملکی تاریخ میں خان پہلا لیڈر تھا جو طویل عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کے صفحے پر رہا اور فوج نے خان کی محبت میں باقی تمام جماعتوں اور لیڈروں کو برباد کر کے رکھ دیا‘ اسٹیبلشمنٹ عمران کو 2018 میں جس طرح ننگی انتخابی دھاندلی کروا کر اقتدار میں لائی تھی، پوری دنیا اس سے واقف ہے، لیکن آج آپ اسی اسٹیبلشمنٹ سے حقیقی آزادی چاہتے ہیں‘ کیا آپ فوج کو ختم کرنا چاہتے ہیں یا اسے ڈرا دھمکا کر اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں‘ آپ پہلے یہ تو واضح کریں‘ آپ نے اگر فوج سے لڑنا ہے تو پھر کھل کر لڑیں اور اگر اس سے ہاتھ ملانا ہے تو پھر کھل کر اس سے مذاکرات کریں‘ کبھی ہاں اور کبھی ناں کیوں کرتے ہیں؟‘‘۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ اس نوجوان کے پاس میری بات کا کوئی جواب نہیں تھا‘ لہازا اس نے کرسی پر پہلو بدلا اور کہا ’’کیا الیکشن جیتنے کے بعد اقتدار خان کا حق نہیں؟‘‘ میں نے فوراً جواب دیا ’’ہاں بالکل ہے لیکن 2022میں عمران کے پاس اس سے زیادہ اقتدار تھا‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس کی اکثریت تھی اور پنجاب‘ کے پی‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اس کی حکومت تھی لیکن خان نے کیا کیا؟ قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے اور اپنی چاروں حکومتیں توڑ دیں‘ آپ کو اگر اس وقت اقتدار نہیں چاہیے تھا تو آج آپ اس کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ دوسرا آپ کو جب اقتدار ملا تو آپ نے 12 کروڑ لوگوں کا صوبہ عثمان بزدار جیسے نالائق اور ناتجربہ کار شخص کے حوالے کر دیا اور کے پی محمود خان کو دے دیا اور آج آپ نے کے پی علی امین گنڈا پور کے حوالے کر دیا‘ کیا آپ دوبارہ اقتدار اس لیے چاہتے ہیں کہ آپ اس نوعیت کے نمونوں کو دوبارہ لے آئیں‘‘۔ بقوک سینئیر صحافی اد نوجوان کے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں تھا‘۔
جاوید کہتے ہیں کہ ’’آپ اب تازہ ترین صورت حال دیکھ لیں‘ عمران خان مولانافضل الرحمن اور محمود اچکزئی کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ یہ پھر ان کے دوست بن گئے‘ پی ٹی آئی 26 ویں ترمیم کی پارلیمانی کمیٹی میں شامل ہوئی‘ دس اجلاس ہوئے‘ یہ ان تمام اجلاسوں میں بیٹھے اور اپنی رائے بھی دی‘ مولانا کے ساتھ بیٹھ کر ترامیم کا مسودہ بنایا لیکن جب سیاسی اتحاد نے مولانا کا مسودہ مان لیا تو انھوں نے ووٹ نہیں دیا‘ آپ بے شک مسودے کی حمایت نہ کرتے لیکن آپ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی ووٹنگ میں تو شریک ہوتے‘ آپ مخالفت میں ووٹ دے دیتے لیکن جب مخالفت کا وقت آیا تو پارٹی دونوں ایوانوں سے غائب ہو گئی‘ آج پارٹی 26 ویں ترمیم کو نہیں مانتی لیکن ترمیم سے بننے والی اس 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی میں 3 سیٹیں لے لیں جس نے نئے چیف جسٹس کا فیصلہ کرنا تھا مگر جب کمیٹی کا اجلاس ہوا تو کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا‘ آپ اگر جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنانا چاہتے تھے تو آپ کمیٹی کے اجلاس میں شامل ہو کر ان کے حق میں ووٹ دیتے‘ آپ نے انہیں ووٹ کیوں نہیں دیا؟
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ’’آپ اب بشریٰ بی بی اور عمران خان کی بہنوں کی رہائی کا معاملہ بھی لے لیں‘ بشریٰ بی بی گنڈا پور کی ڈیل کی وجہ سے رہا ہوئیں‘ گنڈا پور نے اس کا اعتراف بھی کر لیا ہے‘ بشریٰ کی جیل میں ریاستی عہدیداروں سے 7 ملاقاتیں بھی ہوئیں‘ اسٹیبلشمنٹ نے گنڈا پور کو بتا دیا تھا ہم بی بی کے خلاف کوئی نیا کیس نہیں بنا رہے اور آپ فلاں تاریخ کو انکے لیے سیکیورٹی بھجوا دیں اور یوں بی بی پشاور پہنچ گئیں‘ خان کی بہنوں کو بھی غیر سیاسی رہنے کے وعدے پر رہا کیا۔ تاہم ایک طرف پی ٹی آئی والے ہزار سال جیل میں رہنے کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرتے ہیں‘ آپ کی کون سی بات پر یقین کیا جائے؟ قومی اسمبلی ایک طرف فارم 47 کی پیداوار ہے اور دوسری طرف آپ خود بھی اس میں بیٹھے ہیں اور تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہیں‘ ایک طرف آپ قوم کو باہر نکلنے‘ اغلامی کی زنجیریں توڑنے اور انقلاب لانے کی دعوت دے رہے ہیں اور دوسری طرف قائدین انقلاب حماد اظہر‘ اسلم اقبال اور مراد سعید آپ کی مرضی سے چھپے بیٹھے ہیں اور انقلاب کی فصل تیار ہے‘ ایک طرف شاہ محمود قریشی پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین ہیں اور دوسری طرف پارٹی نے ان کے بھانجے ظہور قریشی اور بیٹے زین قریشی کو نوٹس دے رکھے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ یہ پارٹی ہے یا سرکس ہے۔
جاوید چوہدری گلہ کرتے ہیں کہ عمران خان ان تمام لوگوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں جو انہیں اس کنفیوژن سے نکلنے کا مشورہ دیتے ہیں‘ جو انہیں کو بار بار کہہ رہے ہیں آپ اپنی منزل کلیئر کریں‘ آپ جو کرنا چاہتے ہیں اس میں کلیئر ہوں‘ اقتدار میں آنا ہے تو پھر آئیں‘ انقلاب لانا ہے تو پھر انقلاب لائیں‘ آپ فٹ بال کی طرح کبھی دائیں اور کبھی بائیں کیوں لڑھک جاتے ہیں؟‘‘۔