اسلامی نظریاتی کونسل شوہروں کے حق میں کیوں کھڑی ہو گئی؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بغیر اجازت دوسری شادی کرنے پر پہلی بیوی کو شوہر سے طلاق لینے کا حق دیے جانے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے شوہروں کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کو شریعت کے خلاف قرار دے دیا یے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی اپنا اجلاس بلا کر اس فیصلے پر لائحہ عمل مرتب کریں گے۔
یاد ریے کہ جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 18 صفحات پر مشتمل فیصلہ 23 اکتوبرکو جاری کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بغیراجازت دوسری شادی پر پہلی بیوی کو نکاح ختم کرنے کا حق دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ اجازت کے بغیر خاوند کی دوسری شادی پر پہلی بیوی نکاح کا معاہدہ ختم کر سکتی ہے۔ لیکن مفتی راغب نعیمی کی زیر قیادت اسلامی نظریاتی کونسل نے عدالت عظمٰی کے فیصلے کو شریعت کے برعکس قرار دے دیا ہے۔ راغب نعیمی کے مطابق پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر مرد کے دوسرے، تیسرے یا چوتھے نکاح پر بھی شریعت میں کوئی قدغن نہیں ہے۔ انکا کہنا یے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے پر پہلی بیوی کو نکاح ختم کرنے کا حق دینے کا عدالتی فیصلہ غیر شرعی ہے اور آئین کے مطابق کوئی بھی قانون قرآن وسنت سے متصادم نہیں ہو سکتا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مفتی راغب نعیمی کا کہنا تھا کہ انہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام ہے لیکن اس پر شرعی رائے رکھنے کا ہمیں حق حاصل ہے، سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ لینڈ آف لاء کے مطابق لیکن شریعت کے منافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اگلے اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنے ایجنڈے پر لائے گی اور طے کرے گی کہ اس سے کیسے نمٹنا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ اگر خاوند پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرتا ہے تواس کی بنیاد پر پہلی بیوی اپنے شوہرکے ساتھ شادی کا معاہدہ ختم کر سکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے ایک کیس میں ماتحت عدالتوں کی جانب سے شوہر کے مظالم اور خلع کی بنیاد پر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کے حوالہ سے دیئے گئے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے شوہر کی جانب سے پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنے پر پہلی بیوی کا شادی ختم کرنے کا حق تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان شادی ختم ہو چکی ہے۔ ٹرائل کورٹ کی جانب سے درخواست گزار اور مدعا علیہ کے درمیان ازدواجی تعلقات کی بحالی کے حوالہ سے حکم برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے حق مہر، جہیز کے سامان، خرچ کی ادائیگی اور بچے سے ملاقات کے حوالہ سے دیئے گئے شیڈول کے حوالہ سے فیصلہ برقرار رہے گا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ قانونی طورپر شادی کا کنٹریکٹ ختم کرنے کے حوالہ سے بہت سے طریقے دیئے گئے ہیں۔
بنیادی طریقہ یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کوطلاق دے اور اگر بیوی کو اس کا اختیار دیا گیا ہے تو وہ بھی اس حق کا استعمال کر سکتی ہے۔ ہائی کورٹ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ان سوالوں کے حوالہ سے فیصلہ نہیں کرسکتی جن میں حقائق کے تعین کے لئے شہادت ریکارڈ کرنا درکار ہو۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر فریال مقصود کی جانب سے خرم شہزاد درانی کے خلاف دائر درخواست پر 3 مئی 2024 کوسماعت کی تھی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار ڈاکٹر فریال مقصود اور مدعا علیہ خرم شہزاد درانی نے پشاور ہائی کورٹ کے 4 ماچ 2019 کے فیصلے کے خلاف درخواستیں دائر کی ہیں۔
دونوں کی شادی 10 ستمبر 2007 کو ہوئی اور بعد میں 18 دسمبر 2008 کو ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کانام اسد اللہ درانی رکھا گیا۔ مادی جھگڑوں کی وجہ سے دونوں کی زندگی اجیرن بن گئی تھی جس کی وجہ سے ان کے درمیان 2012 میں علیحدگی ہو گئی۔ درخواست گزار خاتون نے 28 جولائی 2012 کو نکاح نامہ میں درج حق مہر کی ادائیگی اور جہیز کے سامان کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ دعویٰ میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ شوہر کی جانب سے زبانی طلاق دینے اور دوسری شادی کرنےبکے بعد دونوں میں طلاق ہو چکی ہے۔