آج کا پاکستان کن غلط پالیسیوں کی وجہ سے ابنارمل ریاست بن گیا؟

معروف اینکر پرسن جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان غلط ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے ایک ابنارمل ریاست بن چکا ہے جہاں حکومت قبضے کی زمین پر بنائی مسجد کے خلاف بھی آپریشن کا حکم جاری نہیں کر سکتی‘ کیونکہ جواب میں چیف جسٹس سے لیکر آرمی چیف تک سب کو غیرمسلم قرار دے دیا جاتا ہے اور ریاست ایسا الزام لگانے والوں کے خلاف کارروائی کی جرات بھی نہیں رکھتی، یہ ہے آج کا پاکستان جو ایک نارمل معاشرے کا متلاشی ہے۔

اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ 1970 کی دہائی تک ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان ایک لبرل مسلم ریاست کے طور پر اگے بڑھ رہا تھا۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں مارشل نافذ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور روس کے خلاف نام نہاد جہاد افغانستان میں پاکستان خو امریکہ کا ٹٹو بن دیا۔  ان کا کہنا ہے کہ یہ جو چورن بیچا جاتا ہے کہ افغان ناقابل تسخیر ہیں یہ مکمل غلط اور جھوٹ ہے۔ دراصل یہ جھوٹ 1980 کی دہائی میں پاکستان کو افغان جہاد کی فیکٹری بنانے کے لیے امریکہ میں گھڑا گیا تھا‘ اسی طرح ضیا دور میں اسلامیات کے نصاب میں جہاد سے متعلق مواد شامل کیا گیا اور اس کے ذریعے پاکستانی قوم کی ذہن سازی کی گئی‘ امریکا کی مدد سے نیم خواندہ مولوی حضرات کو بھی قوم کا ہیرو بنا دیا گیا‘ ان کے ہاتھ میں رائفل اور زبان پر شعلے بھی اگائے گئے‘ انھیں بڑی بڑی گاڑیوں اور رقبوں کا مالک بھی بنایا گیا جس کے نتیجے میں مولوی نے پاکستان کے ذہن اور ثقافت دونوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم آج خوف سے وہ سوال بھی نہیں کر سکتے جو رسول اللہ ﷺاور خلفاء راشدین کے زمانے میں عام بدو بھی کر لیا کرتے تھے اور اس سے دین پر حرف آتا تھا اور نہ حرمت رسول مجروح ہوتی تھی۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جس میں جنگ بطور نصاب کا حصہ سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے‘ جس میں محمد بن قاسم اور محمود غزنوی بھی سلیبس کا حصہ ہیں لہٰذا اس کا یہ نتیجہ نکلا پوری قوم کا مزاج جنگی ہو چکا ہے‘ لوگ اب سبزی اور نان خریدتے ہوئے بھی دوسروں کو قتل کر دیتے ہیں‘ دوسرا ہم افغانوں سے ذہنی طور پر مغلوب ہو چکے ہیں‘ ہم افغانوں سے لڑتے ہوئے یا انھیں بے دخل کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ 45 سال کا ڈیٹا دیکھ لیں‘ ہم نے آدھی صدی میں افغانستان کی وجہ سے کتنی لاشیں اٹھائیں؟ کیا یہ اس خوف کا نتیجہ نہیں اور تیسرا اور آخری نتیجہ مولوی ملک کا قانون اور آئین بن چکے ہیں‘ یہ جب چاہتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں اسے گستاخ رسول قرار دے کر زندہ جلا دیتے ہیں اور ریاست منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔

 جاوید چودھری کہتے ہیں کہ پاکستان میں انتہا پسندی اس حد پر پہنچ چکی ہے کہ اختلاف رائے کرنے والے پر گستاخ رسول ہونے کا الزام لگا کر اسے زندہ جلا دیا جاتا ہے‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا ہماری ریاست اس ملک میں مصوری‘ مجسمہ سازی‘ موسیقی اور تھیٹر کے حق میں قانون سازی کر سکتی ہے؟ کیا یہ اسلام آباد میں مندر‘ گوردوارہ اور ٹمپل بنانے کی اجازت دے سکتی ہے اور کیا یہ اسلامیات کو دوبارہ دینیات اور مطالعہ پاکستان کو معاشرتی علوم میں تبدیل کر سکتی ہے؟ جی نہیں! جو ریاست مدارس کی رجسٹریشن پر بلیک میل ہو جاتی ہے وہ اتنے بڑے بڑے فیصلے کیسے کرے گی ؟یہ ہے آج کا پاکستان‘ ایک نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان۔

Back to top button