70لاکھ مردہ پاکستانی نادراریکارڈمیں زندہ کیسے نکلے؟

لاکھوں پاکستانیوں کے موت کے بعد بھی نادرا ریکارڈ میں زندہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس بات پر یقین نہ آئے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں وفات پا جانے والے 70 لاکھ سے زائد شہری ایسے بھی ہیں، جو نادرا کے ریکارڈ میں زندہ ہیں۔
دستیاب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر میں 70 لاکھ سے زائد ایسے افراد کے شناختی کارڈ اب بھی فعال ہیں، جن کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹس یونین کونسل سے جاری ہو چکے ہیں۔نادرا ریکارڈ میں لاکھوں فوت شدہ افراد کا بروقت ریکارڈ اپ ڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے سامنے آنے والے مسائل کے بعد اب حکومت نے وفات پا جانے والے ان افراد کے شناختی کارڈ منسوخ کرنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ نادرا حکام کے مطابق ایک تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ یونین کونسلوں کے ریکارڈ میں لاکھوں افراد وفات پا چکے ہیں لیکن نادرا کے ڈیٹا بیس میں وہ تاحال فعال شمار ہو رہے ہیں کیونکہ ان کے رشتہ داروں نے نادرا دفتر آ کر ان کے شناختی کارڈ منسوخ نہیں کروائے۔ نادرا حکام نے اس غیر ذمہ داری کا مورد الزام عوام کو ٹھہراتے ہوئے قرار دیا کہ دیہی علاقوں میں آگاہی کا نہ ہونا بھی شناختی کارڈ منسوخی کے مسئلے کی بڑی وجہ ہے، کیونکہ دیہات میں رہنے والے بیشتر لوگ قانونی تقاضوں سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے وہاں شناختی کارڈ کی منسوخی کا رجحان نسبتاً کم ہے۔یونین کونسل کی سطح پر کوئی باضابطہ آگاہی نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے شہری اس عمل سے بے خبر رہتے ہیں اور ضرورت پڑنے پرہی وہ نادرا جاتے ہیں۔‘‘
تاہم مبصرین کے مطابق ماضی میں گاؤں میں ایک چوکیداری نظام موجود تھا، جو کسی بھی وفات کی اطلاع دے کر اس کی رجسٹریشن کرواتا تھا، تاہم اب یہ نظام تقریباً ختم ہو چکا ہے، ” اس کے نتیجے میں وفات شدگان کی رجسٹریشن کی ذمہ داری خاندان کے افراد پر آ گئی ہے، جو اکثر تاخیر یا کوتاہی برتتے ہیں۔ مزید برآں، کوئی جامع نظام موجود نہیں جو وقتاً فوقتاً سروے کرکے یہ معلوم کرے کہ کن افراد کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کی رجسٹریشن نہیں ہوئی۔‘‘ تاہم نادرا ترجمان کے مطابق کسی بھی متوفی شخص کا شناختی کارڈ نادرا کے ریکارڈ سے اس وقت تک نہیں نکالا جا سکتا، جب تک اس کے لواحقین خود آ کر شناختی کارڈ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ جمع نہ کرائیں، کیونکہ یہ ایک حساس قانونی معاملہ ہے۔ نادرا ترجمان کے مطابق یہ ایک قانونی تقاضا ہے، جسے قریبی رشتہ دار بلا معاوضہ کسی بھی نادرا سینٹر میں مکمل کر سکتے ہیں۔ اگر شناختی کارڈ بروقت منسوخ نہ کرایا جائے تو بعد میں ورثا کو قانونی دستاویزات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق نادرا کا ڈیٹا بیس ایک بنیادی چیک ہے، اس لیے اس کا درست ہونا نہایت ضروری ہے۔ تاہم شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی فرد کے انتقال کے بعد اس کا شناختی کارڈ واپس کریں اور اس کی وفات کو یونین کونسل میں رجسٹرڈ کروائیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ نادرا کا نظام مجموعی طور پر بہت اچھا ہے لیکن وفات شدگان کی رجسٹریشن کے حوالے سے مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ حکومت اور نادرا کو اس حوالے سے مؤثر نظام وضع کرنا چاہیے تاکہ وفات شدگان کی بروقت رجسٹریشن یقینی بنائی جا سکے اور عوام میں شعور اجاگر کیا جائے تاکہ وہ سرکاری ریکارڈ کی درستی میں اپنا کردار ادا کریں۔
قانونی ماہرین کے مطابق، متوفی افراد کے شناختی کارڈز کی بروقت منسوخی قانونی اور شہری ذمہ داری ہے تاکہ فوت شدگان کے شناختی کارڈ کو انتخابی دھاندلی، دہشت گردی اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال ہونے سے روکا جا سکے، ‘ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ بے پروائی، لاعلمی یا غیر قانونی فوائد حاصل کرنے کی نیت سے شناختی کارڈ کی منسوخی میں تاخیر پاکستان پینل کوڈ کے تحت فراڈ کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘ اس لئے عوام کو اس حوالے سے اپنی قانونی و اخلاقی ذمہ داری ضرور پوری کرنی چاہیے۔