چینی سفارتخانے نے سی پیک مخالف امریکی پروپیگنڈا مسترد کردیا

چینی سفارتخانے نے امریکی نائب سیکریٹری برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز کی ‘سی پیک’ پر تنقید کو منفی پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
چینی سفارت خانے کے ترجمان نے ایلس ویلز کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ 21 جنوری کو دورہ پاکستان پر آنے والی امریکی نائب سیکریٹری برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز نے ایک مرتبہ پھر پاک ۔ چین اقتصادی راہداری سی پیک کے حوالے سے منفی ردعمل دیا جو نئی بات نہیں ہے بلکہ نومبر 2019 والی تقریر کا تکرار ہے جسے پاکستان اور چین دونوں مسترد کر چکے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہمیں پاک ۔ امریکا تعلقات پر خوشی ہے تاہم پاک ۔ چین تعلقات اور سی پیک میں امریکی مداخلت کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور امریکا کے منفی پروپیگنڈے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے منصوبوں میں پاک ۔ چین باہمی مشاورت اور مشترکہ مفاد کے لیے باہمی تعاون پر پرعزم ہیں جبکہ چین، پاکستانی عوام کے مفادات کو سب سے مقدم رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ برس میں 32 منصوبوں کی قبل از وقت تکمیل سے ثمرات حاصل ہوئے، بروقت تکمیل سے مقامی ذرائع آمد ورفت میں بہتری آئی اور روزگار کے 75 ہزار مواقع پیدا ہوئے اور پاکستان کے جی ڈی پی میں 2 فیصد اضافہ ہوا۔
چینی سفارت خانے نے واضح کیا کہ سی پیک کام کر رہا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب پاکستانی عوام کو دینا ہے نہ کہ امریکا نے، چینی حکومت چینی کمپنیوں سے ہمیشہ مقامی قوانین کے تحت کام کرنے کی درخواست کرتی ہے، سی پیک میں شامل ہونے والی تمام کمپنیاں بین الاقوامی تشخص رکھتی ہیں، سختی سے منڈیوں کے مطابق بین الاقوامی سطح پر قابل قبول بزنس ماڈل کے تحت کام کرتی ہیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی اور ماحولیاتی تحفظ کے اصولوں کی سختی سے پابندی کرتی ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ہم پاکستان کے متعلقہ احتسابی اداروں سے رابطے میں ہیں اور متفق ہیں کہ سی پیک شفاف ہے، پاکستانی اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا کُل بیرونی قرضہ 110 ارب امریکی ڈالرز ہے جن میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پیرس کلب سمیت عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرضہ دینے والوں میں سر فہرست ہیں۔انہوں نے کہا کہ سی پیک کے لیے کُل قرضہ 5.8 ارب امریکی ڈالرز ہے جو کہ کل بیرونی قرضہ جات کا 5.3 فیصد ہے، چینی قرض کی ادائیگی کی مدت تقریباً 2 فیصد شرح سود کے ساتھ 20 سے 25 برس ہے، چینی قرضہ جات کی ری پیمنٹس 2021 میں شروع ہوگی اور سالانہ 30 کروڑ امریکی ڈالر ہوگی جو پاکستان پر کبھی بوجھ نہیں ہوگی۔ترجمان چینی سفارت خانہ کا کہنا تھا کہ چین نے کبھی کسی ملک کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے مجبور نہیں کیا اورپاکستان سے بھی غیر معقول مطالبات نہیں کرے گا، امریکہ مسلسل خود ساختہ قرضہ جات کی کہانی میں مبالغہ آرائی کر رہا ہے، امریکا کا حساب کتاب کمزور اور ارادے بدترین ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا دنیا بھر میں پابندیوں کی چھڑی لے کر گھومتا ہے اور ممالک کو بلیک لسٹ کرتا رہتا ہے، تاہم یہ امریکی عمل عالمی معیشت کے لیے نہیں بلکہ اس کے اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہوتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم امریکہ کو مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ پاک چین تعلقات پر الزامات لگانے سے قبل آپ کو اس چیز پر غور کرنا چاہیے کہ آپ نے پاکستان کے ساتھ کیا کیا ہے؟ کیا ایلس ویلز اپنے دورے کے دوران پاکستان کے لیے کوئی امداد، تجارت یا سرمایہ کاری لے کر آئیں؟ اگر امریکہ کو واقعی پاکستان کا خیال ہے تو اسے باہمی تعلق کو استوار کرنے کے لیے پاکستان کو فنڈز دینے چاہئیں۔‘ سفارت خانے کے مطابق ’چین پاکستان تعلقات مضبوط اور مستحکم ہیں۔ چین علاقائی امن و ترقی کو فروغ دینے کے لیے پاکستانی حکومت اور لوگوں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گا۔‘
واضح رہے کہ سینیئر امریکی سفیر ایلس ویلز نے پاک چین اقتصادی راہداری پر اپنی تنقید دوہراتے ہوئے اسلام آباد سے اس میں شمولیت کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا کہا تھا۔