الیکشن 2024 میں قیدی ووٹ کے حق سے محروم کیوں ہوگئے؟
2018 کی طرح 2024 میں بھی ملک بھر سے قیدی ووٹ کاسٹ کرنے کے حق سے محروم رہیں گے، کیونکہ پاکستانی جیلوں میں انتخابات کا کوئی آسان اور براہ راست طریقہ موجود نہیں ہے۔کوئٹہ ڈسٹرکٹ جیل میں سزا کاٹنے والے قیدی غلام سرور نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ پابند سلاسل شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کے لیے آسان طریقۂ کار رائج کیا جائے، انہوں نے کہا کہ اکثر قیدیوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں۔ ’ہم قیدیوں کی بھی خواہش ہے کہ اپنا جمہوری اور آئینی حق استعمال کریں اگر الیکشن کمیشن ہمیں ایسی سہولت میسر کرتا ہے تو سو فیصد قیدی ووٹ کاسٹ کریں گے۔پاکستان کے چاروں صوبوں کے آئی جیز جیل خانہ جات سے رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی 100 جیلوں میں ایک لاکھ سے کچھ زیادہ قیدی موجود ہیں، آئین کی شق 51 کے مطابق، اگر کوئی شخص پاکستان کا شہری ہے تو اسے ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔آئین میں حقِ رائے دہی کے لیے اہلیت کے جو مندرجہ بالا معیار طے کیے گئے ہیں وہ قیدیوں کو ووٹنگ کے عمل سے خارج نہیں کرتے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 93 (d) کے مطابق جیل میں نظر بند یا زیر حراست شخص پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈال سکتا ہے۔الیکشن ایکٹ 2017 قیدیوں کو پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا حق فراہم کرتا ہے، تاہم 2018 کے انتخابات کے علاوہ چاروں صوبوں کے بلدیاتی انتخابات میں قیدیوں نے ووٹ کے درخواست دی تھی لیکن سرکاری سطح کسی نے بھی ایک قیدی کے ووٹ کاسٹ کرنے کی تصدیق نہیں کی۔پاکستان کی کسی جیل میں موجود قیدی ووٹ ڈالنے کے لیے سب سے پہلے متعلقہ پریزائڈنگ افسر کو تحریری طور پر اپنا پوسٹل بیلٹ پیپر جیل منگونے کی درخواست کرتا ہے۔ بیلٹ پیپز ملنے کی صورت میں قیدی جیل حکام کے زیر نگرانی ووٹ ڈالتا ہے، اور بعد ازاں جیل حکام قیدیوں کے تمام نشان زدہ بیلٹ پیپرز الیکشن کمیشن کو بھیج دیتے ہیں۔اس سادہ سے عمل کو مکمل کرنے کے لیے محکمہ داخلہ اور ڈی آئی جیل خانہ جات اور دوسرے کئی سرکاری عہدیداروں سے اجازت درکار ہوتی ہے، جس کے باعث قیدی اتنے لمبے بکھیڑے میں پڑنے کی بجائے ووٹ نہ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔الیکشن کمیشن اور قیدی کے درمیان بیلٹ پیپر کی آمد و رفت ڈاک کے ذریعے ہوتی ہے، جس کی سست روی کے باعث اکثر قیدیوں کے ووٹ تاخیر سے پہنچتے ہیں اور گنتی میں شامل نہیں ہو پاتے۔کوئٹہ میں واقع ہدہ جیل میں موجود قیدی روشن خان کے مطابق اگر ہر جیل میں پولنگ سٹیشن قائم کر دیا جائے تو ہزاوں کی تعداد میں قیدی ووٹ کاسٹ کریں گے۔کوئٹہ ڈسٹرکٹ جیل کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ عبدالرسول جتک نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اکثر قیدی ووٹ کاسٹ کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب ہم انہیں تمام پراسس بتاتے ہیں تو وہ درخواست نہیں کرتے۔‘چیف پبلک انفارمیشن افسر انسپکٹر جیل خانہ جات پنجاب امتیاز عباس کے مطابق 2018 کے انتخابات میں قیدیوں کے کاسٹ ووٹوں کی تعداد محکمہ جیل خانہ جات کے پاس موجود نہیں تاہم پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں کوئی قیدی نے ووٹ کاسٹ نہیں کر سکا۔خضدار سینٹرل جیل کے سپرنڈنٹ یاسین بلوچ نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ فروری کے انتخابات کے حوالے سے انہیں ابھی تک کوئی حکم نامہ موصول نہیں ہوا۔ بلوچستان کے محکمہ جیل خانہ جات کے ذرائع کے مطابق 2018 کے انتخابات میں صوبے کی جیلوں میں موجود تقریباً 1900 قیدیوں میں سے 150 کے قریب نے پوسٹل بیلٹ کے حصول کے لیے جیل حکام کے ذریعے ریٹرننگ افسران کو درخواستیں بھیجی تھیں لیکن پیچیدہ طریقہ کار کے باعث کسی کو حق رائے دہی کا موقع نہیں مل سکا۔الیکشن کمیشن بلوچستان کے ترجمان نعیم احمد نے انڈپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا
کہ قیدیوں اور سرکاری ملازمین کے لیے پوسٹل بیلٹ کا قانون موجود ہے