PTI کے اشتہاری ملزموں کو الیکشن لڑنے کا حق دینا جائز ہے؟
سینئر صحافی اور کالم نگار مزمل سہروری نے کہا ھے کہ حماد اظہر سمیت پی ٹی آئی کے کئی مفرور اور اشتہاریوں کے کاغذات نامزدگی مختلف حلقوں سے منظور ہو گئے ہیں حالانکہ وہ لوگ ابھی تک قانون کو مطلوب ہیں ۔ عبوری ضمانت ہر شہری کا حق ہے اور اس حق سے کوئی بھی عدالت کسی بھی طرح انکار نہیں کر سکتی۔ لیکن عام انتخابات قوم کی نمائندگی کرنے کا معاملہ ہے ، کیا مفروروں اور اشتہاریوں کوعوامی نمائندگی کرنے کا حق دیا جا سکتا ہے؟ کیا مفروروں اور اشتہاریوں کو یہ سہولت دینا جائز ہے کہ ان کے عدالت کے سامنے پیش ہوئے بغیر بھی ان کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہو سکتی ہے اور انھیں منظور بھی کیا جا سکتا ہے اگر کسی مالی ڈیفالٹر کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تو پھر قانون اور نظام انصاف کا ڈیفالٹر کیسے انتخابات میں حصہ لے سکتا ھے۔ اپنے ایک کالم میں مزمل سہروری کہتے ہیں کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس بھی سامنے آئے ہیں کہ دونوں رہنماؤں نے عام انتخابات میں حصہ لینا ہے‘ لہٰذا صرف انتخابات میں حصہ لینا ہے لہذا ضمانت کے لئے یہ ایک وجہ کافی ھے، کیونکہ عام انتخابات میں حصہ لینے سے کسی کو بھی روکا نہیں جا سکتا کیا یہ اصول‘ استدلال اورمنطق قانون کے مطابق ہے؟۔ کیا قانون کی نظر میں کسی ملزم کی ضمانت کے لیے صرف انتخابات میں حصہ لینے کی ایک ہی وجہ کافی ہو سکتی ہے، چاہے اس کا جرم کتنا بھی سنگین کیوں نہ ہو؟ تحریک انصاف کے کئی رہنما جو کافی عرصہ سے قانون کو مطلوب اور اشتہاری بھی قرار دئیے گئے تھے۔ انھوں نے بھی اسی بنیاد پر مختلف عدالتوں سے فوری عبوری ضمانتوں کے لیے رجوع کیا، عدالت نے انھیں بھی کاغذ جمع کرانے کی اجازت دی ہے اور انھیں عبوری ضمانتیں بھی دی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مفروروں اور اشتہاریوں کو یہ سہولت دینا جائز ہے کہ ان کے عدالت کے سامنے پیش ہوئے بغیر بھی ان کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہو سکتی ہے اور انھیں منظور بھی کیا جا سکتا ہے۔کیا انتخابات میں حصہ لینا کسی ملزم کی ضمانت کے لیے کافی وجہ ہے؟ اگر اس منطق کو قبول کر لیا جائے تو پھر پاکستان کی جیلوں میں ہزاروں ایسے قیدی جنھیں حتمی سزا نہیں ہوئی ہے‘ وہ اپنے اپنے حلقوں سے الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروادیں‘ اس کی کاپی عدالت میں جمع کروائیں اور ضمانت پر رہائی حاصل کر لیں۔ ہمارا نظام انصاف یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم ہے۔اس میں مقبول اور غیر مقبول‘ امیر اور غریب‘ بڑے اور چھوٹے کی کوئی تمیز یا امتیاز نہیں ہے۔ لہذا اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے کہ کاغذات نامزدگی کس نے جمع کروائے ہیں؟ بات اصول یا قانونی نظیر کی ہے کہ انتخابات لڑنا ضمانت کے لیے واحد وجہ کافی ہے۔ جرم کی نوعیت کیا ہے؟ یہ بات اہم نہیں ہونی چاہیے۔ انتخابی تاریخ میں جیل میں بیٹھ کر انتخابات لڑنے کی روایت موجود ہے۔ جب تک آپ کو سزا نہ ہوجائے‘ آپ انتخابات لڑنے کے اہل ہیں۔ اس لیے لوگ جیل سے بیٹھ کر انتخابات لڑتے رہے ہیں۔ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس بنیاد پر ضمانت صرف ایک دو سیاسی رہنماؤں یا ایک مخصوص سیاسی جماعت کے رہنماؤں کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
مزمل سہروری کہتے ہیں کہ یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ قانون کی یہ دلیل اور منطق کسی مخصوص جماعت اور اس کے رہنماؤں کوالیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کے لیے تو استعمال نہیں ہو گی۔ آپ جیل سے انتخابات جیت جائیں تو بھی یہ ضمانت کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔منتخب ایوان کا اسپیکریا چیئرمین آپ کے پروڈکشن آرڈر تو جاری کر سکتا ہے‘ لیکن انتخابات جیت کر اپنے حلقہ کی نمائندگی کرنے کی وجہ بھی ضمانت کے لیے کوئی دلیل نہیں ہو سکتی۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ قید رہے ہیں، اور ان کو اس بنیاد پر کبھی ضمانت نہیں ملی کہ وہ ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ ہم نے تو دیکھا ہے کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر بھی گرفتار ہو گئے تھے۔ ان کی ضمانت نہیں ہوئی تھی ی
لیکن کورٹ اس بنیادپر ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں تھی کہ وہ منتخب اسمبلی کے اسپیکر اور رکن ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف دوسال سے زائد قید رہے لیکن ان کی ضمانت نہیں ہوئی۔ حالانکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے بغیر کارروائی چل ہی نہیں سکتی۔ لیکن نہ تو قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کی ضمانت ہوتی تھی اور نہ ہی پروڈکشن آرڈر جاری کیے جاتے تھے۔ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ کہ قانون کو مطلوب مفرور اشتہاریوں کے بھی کاغذات نامزدگی جمع ہو گئے ہیں بلکہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے وکیل بھی کاغذ جمع کروا سکتے ہیں۔ بذریعہ وکیل کاغذ جمع کروانے کی تو قانون میں گنجائش موجود ہے لیکن اگر آپ کسی کیس میں مفرور ہیں ‘اشتہاری ہیں تو پھر بھی آپ بذریعہ وکیل کاغذ جمع کروا سکتے ہیں، کیا یہ قانون اور ریاستی نظام کی زوال پذیری نہیں۔ کیا ہمارا نظام قانون اور ہمارا نظام انتخاب کمزور نہیں ہو جائے گا۔
مزمل سہروری کے مطابق اگر ہم کسی مالی ڈیفالٹر کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر آپ نے بجلی کا بل بھی بروقت نہیں دیا تو آپ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ تو پھر آپ قانون اور نظام انصاف کے ڈیفالٹر ہو کر کیسے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں؟ کیا کسی ملزم کی یہ منطق اور دلیل قبول کی جا سکتی ہے کہ حالات اس کے حق میں نہیں ہیں‘ حکومت اس کی مخالف ہے، اس لیے وہ قانون کے سامنے سرنڈر نہیں کر رہا‘ اسے انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے‘ وہ حکومت میں آکر سب ٹھیک کر لے گا۔ کیا نظام انصاف اور نظام قانون اس منطق اور دلیل کو قبول کر سکتا ہے؟ جہاں تک انتخابات سے قبل عبوری ضمانت حاصل کر کے اس میں حصہ لینے کی بات ہے تو اس میں قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہے۔ لیکن کچھ پہلو غوروفکر کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے کا جواز بنا کر عبوری ضمانت حاصل کر کے قانون کی گرفت سے بچنے کا پہلو ضرور سامنے رکھا جانا چاہیے۔ آپ انتخابی شیڈول کے سامنے آتے ہی عبوری ضمانت حاصل کریں‘ وکلا کے ذریعے اس عبوری ضمانت کو ایک دو ماہ چلائیں‘ انتخابی مہم چلائیں‘ جیت جائیں تو ٹھیک ورنہ دوبارہ اشتہاری اور مفرور ہو جائیں لہٰذا ان کی عبوری ضمانت کا فوری فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
انتخابات لڑنے والوں کو قانون کے تابع ہونا چاہیے۔ وہ خود قانون سے مفرور ہوں گے تو نظام کیسے چلے گا۔