ہم بغلیں بجانے اور بغلیں جھانکنے والے لوگ

تحریر:وسعت اللہ خان، بشکریہ:بی بی سی اردو

کیا نیا ہو رہا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں۔ عمران خان نے وہی تو کیا جو ہمارے جمہوری و نیم جمہوری و آمرانہ ڈی این اے میں ابتدا سے پروگرامڈ ہے۔ جو نہیں جانتے وہ یہ سمجھ کر جوش میں ہیں کہ شاید پہلی بار کچھ عجیب سا ہو رہا ہے۔نا کچھ عجیب ہے نا انہونا، وہی ہم عوام ہیں، وہی سیاستدان، وہی عدلیہ، وہی فوج۔ ہاتھی کے ہاں ہاتھی ہی جنم لے گا لومڑی تو پیدا ہونے سے رہی۔ جس طرح کا ڈھانچہ اور مزاج ورثے میں ملا ہے، نسل در نسل وہی تو کروائے گا جو ہوتا آیا ہے۔

ہم نے تو تب بھی دانتوں میں ایسے ہی انگلیاں دابی تھیں جب بیوروکریٹ ڈکٹیٹر غلام محمد کے اسمبلی توڑنے کے حکم کو سپیکر مولوی تمیز الدین چیف کورٹ (سپریم کورٹ) میں چیلنج کرنے کے لیے رکشے میں برقع پہن کر ہانپتے کانپتے پہنچے تھے۔ پر کیا ہوا؟ الٹا عدلیہ نے نظریہِ ضرورت تھما دیا۔ (انہی جمہوریت نواز تمیز الدین صاحب نے آٹھ برس بعد پہلے مارشل لائی حکمران کی چھڑی کے چھو منتر سے وجود میں آنے والی اسمبلی کا سپیکر بننا قبول کر لیا)۔

ہم تو جب بھی مارے حیرت کے اچھل کر کرسی سے گر پڑے تھے جب سویلین سوٹ میں ملبوس میجرجنرل نما بنگالی بیوروکریٹ نے ہری پور کے ایک حاضر جنرل کے تعاون سے 1956 کا پہلا متفقہ آئین لپیٹ کے اس کی گول گول دوربین بنا لی تھی۔ہمیں تو تب بھی رونا آ گیا تھا جب برٹش آرمی کے سینڈ ہرسٹی کمیشنڈ یافتہ بابائے مارشل لا عرف نجات دہندہ نے جناح صاحب کی بہن کو انڈین ایجنٹ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور پھر بیلٹ بکس پر جُھرلو (پولیٹیکل انجینیئرنگ) پھیر کر صدارتی انتخاب جیت لیا۔

اور پھر اس نجات دہندہ نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کے تحت سبکدوش ہوتے وقت سویلین سپیکر کو قائم مقام صدارت سونپنے کے بجائے سپاٹ چہرے والے چیف کو زیادہ قابلِ بھروسہ سمجھ کر اپنا ہی آئین اس کے ہاتھوں بخوشی تڑوا کر رخصت لے لی۔ہم تو تب بھی آج ہی کی طرح سکتے میں تھے جب اسی چیف نے پہلے آزادانہ و منصفانہ انتخابات کروانے کے باوجود غیر من پسند نتائج قبول کرنے سے انکار کر کے ملک تڑوا دیا مگر اقتدار منتقل نہیں کیا۔

پھر ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ کوئی تو ایسا سویلین منتخب و مقبول عوامی حکمران آیا جو فوجی قیادت کے ساتھ ہم آہنگ ہے (تب ایک پیج اور اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح ایجاد نہیں ہوئی تھی)۔پر اس کو بھی کرسی سے ایسا عشق ہوا کہ اپنی زبردست مقبولیت کو سراب سمجھتے ہوئے اگلے انتخابات میں دھاندلی کو ضروری جانا اور جب حزب اختلاف نے آج ہی کی طرح متحد ہو کر تحریک چلانے کی کوشش کی تو سارا زور اپوزیشن کو امریکی کاسہ لیس ثابت کرنے پر صرف کر دیا۔

اور پھر جب انہی امریکی کاسہ لیسوں کے ساتھ از سرِ نو انتخابات کے لیے سمجھوتہ طے پا گیا تو ایک اور محبِ وطن جنرل نے جمہوریت بچانے کے لیے سویلینز کے پیروں تلے سے قالین کھینچ لیا اور پھر اگلے 10 برس طرح طرح کے کرتب دکھا کر گزار دیے اور پھر خود بھی گزر گیا۔اور پھر ہماری جمہوریت سمجھوتہ ایکسپریس پر سوار ہو گئی۔ بی بی اس سمجھوتہ ایکسپریس کی پہلی مسافر تھیں، نواز شریف دوسرے مسافر تھے۔ مگر جب اُنھوں نے بھی بیچ سفر میں زنجیر کھینچنے کی کوشش کی تو کنڈکٹر گارڈ نے ٹرین سے اتارنے میں دیری نہیں لگائی۔

امریکہ کو سب سے زیادہ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف جیسے عظیم سہولت کار پسند تھے۔ مگر آج بھی کوئی مائی کا لال اُنھیں امریکی ایجنٹ کہہ کر تو دکھائے۔ ہر طرح کے یہودی، انڈین، امریکی، اسرائیلی و سعودی ایجنٹ آپ کو سویلینز سویلینز ہی میں تلاش کر کے دیں گے۔

فقیر محمد پردیسی اور سانڈے کا تیل

ایک ترک کہاوت ہے کہ ’آقا پر ایک غلام کا غصہ دوسرے غلام پر ہی اترتا ہے، میڈیا باز کہہ رہے ہیں کہ آج پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا اس پر پوری دنیا ہنس رہی ہے۔ ویسے دنیا نے آپ کو سنجیدگی سے کب لیا تھا جو آج ایک بار پھر آپ خود ساختہ خجالت کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔پچھتر برس میں بغلیں بجانے یا بغلیں جھانکنے کے سوا اور کیا ہی کیا ہے؟

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں (جون ایلیا)

Back to top button