پاکستان کے بُدھ مت برادری خاتمے کی جانب گامزن کیوں؟

کسی زمانے میں پاکستان کو بدھا تہذیب کا گڑھ مانا جاتا تھا مگر اب یہاں کی بدھ مت برادری معدومیت کی طرف گامزن ہے اور بچ جانے والے اکا دُکا بُدھ پیروکار اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں بدھ مت کی قدیم تاریخ ہے۔ پنجاب میں ٹیکسلا اور خیبرپختونخواہ میں تخت بھائی کے تاریخی علاقوں میں موجود سٹوپاز اور وادی سوات میں جنم لینے والی گندھارا تہذیب کو بدھ ازم کا گہوارہ مانا جاتا ہے جو کہ پاکستان کا حصہ ہیں۔ لیکن اب ایک اندازے کے مطابق یہاں بدھوں کی تعداد پانچ ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔
شاید یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے نئی ہو کہ پاکستان میں بُدھ مذہب کے ماننے والے بھی رہائش پذیر ہیں اگرچہ ان کی تعداد محدود ہے تاہم پاکستان کے صوبہ سندھ کے اضلاع نوشہرو فیروز، سکھر، گھوٹکی، خیر پور، سانگھڑ اور نواب شاہ میں ان کے 650 کے قریب خاندان آباد ہیں۔ بدھ مت کے یہ پیروکار بڑے بڑے زمینداروں کے پاس مزارعے کی زندگی گزار رہے ہیں اور معاشی حالات دُگرگوں ہونے کے باوجود یہ صدیوں سے اپنی الگ مذہبی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بُدھ مت کا بڑا تاریخی مرکز گندھارا ہے جو ٹیکسلا سے وادی سوات اور پشاور تک پھیلا ہوا تھا یہاں پہلی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی عیسوی تک بُدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔
جب محمد بن قاسم 711 میں سندھ پر حملہ آور ہوئے تو یہاں کے باشندوں کی بڑی تعداد بدھ مت کے پیرو کاروں کی تھی جبکہ ہندو اس کے بعد دوسرے نمبر پر تھے۔
اس حوالے سے ایک دلچسپ داستان بیان کی جاتی ہے کہ راجہ داہر نے سندھ کی ریاست کے ایک بُدھ حکمران راجہ ساسی کے انتقال کے بعد ان کی سوہنی نامی ملکہ سے شادی کر کے اقتدار حاصل کیا تھا۔ راجہ داہر کی محمد بن قاسم سے شکست کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی رعایا کی اکثریت کا تعلق بُدھ مت سے تھا جو ایک برہمن راجہ کے اقتدار کے تحفظ کے لیے محمد بن قاسم سے لڑنا نہیں چاہتی تھی۔ساتویں صدی عیسوی میں سندھ پر بُدھ مت کی حکمرانی تھی لیکن آج اُسی سندھ میں بُدھ مت کے ماننے والے گنے چنے رہ گئے ہیں۔
2017 میں ہونے والی مردم شماری کے تحت یہاں بُدھ مت کے ماننے والوں کی حقیقی آبادی تو نہیں بتائی گئی لیکن یہ بتایا گیا ہے کہ 0.07 فیصد یعنی تقریباً ساڑھے 14 لاکھ کا تعلق دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے ہے جن میں ہندو، عیسائی، احمدی یا شیڈولڈ کاسٹ کے لوگ شامل ہیں۔
حال ہی میں سینٹر فار کلچر اینڈ ڈویلپمنٹ کے زیراہتمام ٹیکسلا میں گندھارا فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جسکی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے بُدھ مت مذہب کے پیرو کاروں کا ایک گروپ بھی مدعو تھا۔ اس گروپ کے سربراہ جمن کرمو پیشے کے اعتبار سے ریٹائر پرائمری سکول ٹیچر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم سندھ دھرتی کے واسی ہیں، ہزاروں سال سے یہاں رہائش پذیر ہیں اور نسلوں سے بُدھ مذہب کے پیروکار ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم معاشی طور پر بہت پسماندہ ہیں۔ زیادہ تر لوگ ان پڑھ ہیں جو سندھ کے بڑے بڑے جاگیرداروں کے پاس مزارعے ہیں۔ہمارا کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں ، کبھی ایک جاگیر دار کے پاس تو کبھی دوسرے جاگیر دار کے پاس۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی اب بہت کم رہ گئی ہے، اس لیے آبادی کے تناسب سے ہماری نمائندگی حکومتی ایوانوں میں نہیں، حکومت چاہے تو ہمیں خصوصی طور پر نمائندگی دے کر دنیا کے بُدھ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے ایک پل کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔
جمن کرمو نے بتایا کہ ہمارا مذہبی علم سینہ بہ سینہ چلا آ رہا ہے، اس لیے ہمارا کوئی استاد نہیں ہوتا۔ ہم نے گھروں میں ہی مہاتما بُدھ کی تصویریں رکھی ہوئی ہیں۔ ہماری الگ کوئی مذہبی عبادت گاہ یا سٹوپا نہیں ہے۔ جب ویساکھہ کا مہینہ آتا ہے تو ہم 30 دن روزہ رکھتے ہیں، زمین پر سوتے ہیں اور جب ویساکھ کے مہینہ میں پورن ماشی یا چاند کی 14ویں آتی ہے تو وہ ہمارے لیے عید کا دن ہوتا ہے۔
انہوں نے بُدھ مت میں شادی بیاہ کی دلچسپ رسومات کے بارے میں بھی بتایا کہ ہمارا شادی بیاہ کا طریقہ ہندوؤں سے مختلف ہے۔ ہندو سات پھیرے لگاتے ہیں جبکہ ہم چار پھیرے لگاتے ہیں، ان میں سے بھی ایک پھیرا دولہا لگاتا ہے اور تین پھیرے دلہن لگاتی ہے۔ پہلے پھیرے میں دلہن قسم اُٹھاتی ہے کہ میرے جسم کا مالک میرا خاوند ہو گا، دوسرے پھیرے میں وہ اپنے من اور تیسرے پھیرے میں اپنے دھن کا مالک بھی خاوند کو قرار دیتی ہے جبکہ دُولہا ایک ہی پھیرا لگاتا ہے جس میں وہ قسم اُٹھاتا ہے کہ میرے جسم کی حق دار صعف میری بیوی ہو گی۔
اسی طرح جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اسے دفنا کر اس کے لیے دعا کروائی جاتی ہے۔ جمن کرمو نے کہا کہ ہماری الگ شناخت تو ہے لیکن ہماری کمیونٹی معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ اب صرف اکا دُکا خاندان کہیں کہیں آباد ہیں، اس لیے بچوں کے رشتوں میں بھی بڑے مسائل ہوتے ہیں۔ انکا۔کہنا تھا کہ بدھ مت میں بین المذاہب شادیاں ہوتی تو ہیں مگر بہت ہی معمولی تعداد میں، انکا۔کہنا تھا کہ غربت اور پسماندگی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے لہازا پاکستان کی بُدھا کمیونٹی کی بقا کے لیے کوئی خصوصی پروگرام شروع کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا آپ حیران ہوں گے کہ گندھارا ہمارے لیے مذہبی حوالوں سے بڑا متبرک ہے مگر میں خود یہاں پہلی مرتبہ آیا ہوں اور میری کمیونٹی تو شاید جانتی بھی نہیں کہ ان کے ملک میں بُدھ مذہب کے ماننے والوں کی ایک بڑی تہذیب کبھی موجود تھی۔
پاکستان میں بُدھ برادری تو مسائل کا شکار ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں بُدھ مذہب کی قدیم تاریخ جگہ جگہ بکھری ہوئی ہے جس کا تحفظ کر کے پاکستان دنیا بھر سے بُدھ سیاحوں کے لیے پرکشش ملک بن سکتا ہے۔
رواں برس اپریل میں سری لنکا سے پاکستان آنے والے بُدھ مت پیشواؤں نے گندھارا تہذیب کے مختلف تاریخی مقامات کا دورہ کرنے کے بعد پاکستان کو دنیا بھر میں بُدھ مت کے پیروکاروں کے لیے ایک پرکشش ملک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ زائرین کی آمد مستقبل میں پاکستان کی مذہبی سیاحت کو ناقابل یقین فروغ دے سکتی ہے۔وفد میں شامل ایک پیشوا سجیت نے کہا کہ انہیں علم نہیں تھا کہ پاکستان میں اس قدر شاندار تاریخی مقامات ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ بُدھ مت تہذیب کی باقیات دیکھنے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک کا دورہ کر چکے ہیں لیکن پاکستان ان میں سرفہرست ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان میں بُدھ مت تہذیب کے تاریخی مقامات کا دورہ کیا جن میں بعض حیران کن حد تک خوبصورت اور روحانی کشش رکھتے ہیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ مجھے یہاں بہت پہلے آنا چاہئے تھا۔