حکومت کا سولر صارفین سے بجلی 27 کی بجائے 7روپے یونٹ خریدنے کا فیصلہ

وفاقی حکومت نے سولر سسٹم لگانے والے صارفین کو چونا لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ حکومت نے سولر پینل استعمال کرنے والے صارفین کے حوالے سے ایک نئی پالیسی تیار کر لی ہے جس کے تحت اب گھروں میں سولر پینل لگوانے والوں سے فی یونٹ بجلی 27 روپے کے بجائے 7 سے 10 روپے میں خریدی جائے گی۔ حکومت کی نئی سولر پالیسی سے جہاں لاکھوں روپے خرچ کر کے سولر سسٹم لگانے والے صارفین پریشانی کا شکار ہیں وہیں دوسری جانب ماہرین حکومتی پالیسی کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔

نئی سولر پالیسی کے سامنے آنے والے خدوخال کے مطابق سولر پینلز سے پیداشدہ بجلی کی خریداری کی قیمت ماضی میں اُس وقت سولر اور انورٹرز کی قیمتیں دیکھ کر مقرر کی گئی تھی تاہم ماضی کی نسبت اس وقت مارکیٹ میں فی کلو واٹ سولر 1900 سے 2200 روپے  میں دستیاب ہے۔ اسی طرح انورٹرز کی قیمتوں میں بھی 30 سے 40 فی صد تک کمی آچکی ہے۔تاہم صارفین سے سولر کے ذریعے بجلی کی خریداری کا نرخ وہی 7 سال پرانا ہے اور اب سولر پینلز کی خریداری پر آنے والے اخراجات 3 سے 5 سال کے بجائے 16 سے 18 ماہ میں پورے ہو رہے ہیں۔

وفاقی حکومت نے ان وجوہات کی بنیاد پر ہی ایک نئی سولر پینل پالیسی تیار کی ہے جس کے مطابق اب ملک بھر میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں سولر صارفین سے بجلی 27 روپے کے برعکس فی یونٹ 7 سے 10 روپے میں خریدیں گی۔تاہم ماہرین کے مطابق اس نئی سولر پالیسی سے پرانے سولر صارفین متاثر نہیں ہونگے۔ یعنی نئی پالیسی کی منظوری کے بعد پہلے سے لگائے گئے سولر صارفین سے حکومت موجودہ معاہدہ پورا ہونے تک موجودہ نرخ پر ہی بجلی خریدے گی، البتہ نئے کنکشن نئی سولر پالیسی کے تحت ہی لگائے جائیں گے۔

خیال رہے کہ حالیہ عرصے کے دوران ملک بھر میں سولر پینلز استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھا گیا ہے۔ وزارتِ توانائی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں سولر پینل استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 2 لاکھ 83 ہزار ہو چکی ہے۔حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سال 2021 میں 321 میگاواٹ کے نیٹ میٹرنگ صارفین تھے جو دسمبر 2024 تک بڑھ کر 4124 میگاواٹ ہو چکے ہیں۔

وزیر توانائی سردار اویس لغاری کا نئی سولر پینل پالیسی حوالے سے کہنا ہے کہ ’نئی سولر پالیسی کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے جلد منظوری لے لی جائے گی اور پھر وفاقی کابینہ سے حتمی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔‘

ماہرینِ امور توانائی حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی اس نئی سولر پینل پالیسی کو درست اقدام قرار دے رہے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ’موجودہ سولر پینل کی پالیسی کے مطابق سولر لگوانے والے صارفین سے اُن کی لاگت سے کہیں زیادہ مہنگی بجلی خریدی جا رہی ہے جس کا بوجھ ملک کے مجموعی بجلی صارفین پر منتقل ہو رہا ہے۔‘

شعبہ توانائی میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھنے والے سابق ایم ڈی این ٹی ڈی سی اور لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فیاض چوہدری سمجھتے ہیں کہ ’پاکستان میں سولر پینل کے صارفین کو اُن کی انرجی کاسٹ یعنی سولر پینل لگانے کے اخراجات کے مطابق ہی ادائیگی ہونی چاہیے۔‘اُن کے مطابق ’گھروں میں سولر پینل لگوانے والے صارفین کی فی یونٹ لاگت 6 سے 8 روپے بنتی ہے جبکہ حکومت اُن سے بجلی کی خریداری 27 روپے میں کر رہی ہے جس کا اثر دیگر بجلی استعمال کرنے والے دیگر کروڑوں صارفین پر پڑ رہا ہے۔‘ڈاکٹر فیاض چوہدری نے سولر پینل کے بجلی صارفین کے لیے تیارکردہ نئی پالیسی کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس پالیسی کے نافذ ہونے کے بعد سولر پینل کے صارفین کو اُن کے اخراجات کے مطابق ہی پیسے ملیں گے۔‘

بعض دیگر ماہرین کے مطابق سولر پینلز استعمال کرنے والے صارفین سے بجلی کی خریداری کی قیمت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں بجلی پیدا کرنے والی سرکاری و نجی کمپنیوں کے لیے اس قیمت کو کم ہونا چاہیے۔اُنہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں مخصوص طبقے کو نوازنے کے لیے سولر سے بجلی کی خریداری کے نرخ کو زیادہ رکھا گیا اور پھر اس کا بوجھ عام صارفین پر ڈالا گیا۔‘ سولر پینلز کی قیمتوں سے زیادہ حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ عام صارفین کے لیے بجلی کی قیمت کو کم سے کم کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ بجلی صارفین مستفید ہو سکیں۔

Back to top button