فقیر محمد پردیسی اور سانڈے کا تیل
تحریر:وسعت اللہ خان، بشکریہ:بی بی سی اردو
میرے محلے میں جب پہلی بار سانڈے کا تیل بیچنے والا آیا تو کیا بچے، بوڑھے، جوان۔ ایک ٹھٹھ لگ گیا۔ تیل والے کے ساتھ ایک چھوٹا بھی تھا جس نے پہلے چادر بچھائی، پھر اس پر کچھ یورپی خواتین کی رنگین تصاویر سجائیں، کچھ تصاویر تاریخی عمارات کی اور کچھ متبرک مقامات کی بھی ساتھ ساتھ بچھا کے ان پر گول گول پتھر رکھ دیے تاکہ اڑ نہ جائیں۔
پھر ایک بڑے تھیلے میں سے سرکنڈے سے بنے دو بڑے پٹارے چادر کے عین درمیان رکھ دیے۔
ایک پٹارے میں سے چار پانچ زندہ سانڈے نکال کر الٹے رکھ دیے گئے جو پڑے پڑے کلبلا رہے تھے۔ دوسرا پٹارا تیل والے نے یہ کہتے ہوئے بند ہی رکھا کہ جو جو میری بات آخر تک دھیان سے سنے گا اسے میں اس پٹارے میں بند دنیا کا سب سے زہریلا سانپ دکھاؤں گا۔
مہربان، قدر دان، بھائی جان، چاچا لوگ اسلام و علیکم۔
بھائی صاحب جس طرح اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اسی طرح اس نے دوسرے جانوروں کو بھی پیدا کیا ہے۔ کچھ جانور وحشی ہوتے ہیں جیسے سور، گینڈا، لگڑ بگا، شیر، چیتا، تیندوا۔ کچھ جانور انسان کے فائدے کے لیے پیدا کیے گئے جیسے گائے، بیل، بھینس، بکری، بھیڑ، گھوڑا، گدھا وغیرہ۔ اور کچھ جانور پالے نہیں جا سکتے مگر پھر بھی انسان کے فائدے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں جیسے سانڈا۔
ابھی آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سانڈا کیا بلا ہے۔ تو بھائی جان یہ حلال جانور نہیں ہے لیکن اس کا تیل ہزار بیماریوں کا علاج ہے۔ یہ افریقہ کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے۔ اسے بڑی مشکل سے پکڑا جاتا ہے۔ بہت پھرتیلا اور چالاک ہوتا ہے۔ موقع ملتے ہی بھاگ جاتا ہے۔ اسی لیے جب ہم سانڈا پکڑتے ہیں تو فوراً اس کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دیتے ہیں تاکہ یہ بے بس ہو جائے اور بھاگ نہ جائے۔
اتنے میں مجمع میں سے کسی لڑکے نے آواز لگائی خان صاحب سانپ کب دکھاؤ گے؟صبر کرو، صبر نہیں ہے تم میں۔ تمہاری تو ادھر کھڑے ہونے کی عمر بھی نہیں ہے۔ تم جاؤ اپنی والدہ محترمہ کا سر دباؤ، یہ تیل بچہ لوگ کے لیے نہیں ہے۔ وہ لڑکا چپ چاپ ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ہاں تو بھائی صاحب میں کہہ رہا تھا کہ ہم لوگ سانڈے کو پکڑ کے اس کی کمر کی ہڈی توڑ دیتے ہیں تا کہ یہ بھاگ نہ سکے۔
مگر اللہ کی شان ہے کہ یہ جانور گوشت خور نہیں، سبزی خور ہے۔ یہ گھاس پھوس کھاتا ہے، اس کی مرضی کبھی درخت پر رہتا ہے کبھی جھاڑیوں میں رہتا ہے، آپ کو پتہ ہے افریقہ میں کتنی بڑی بڑی جھاڑیاں ہوتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالی نے اس کا وطن افریقہ بنایا ہے۔خان جی بہت باتیں ہو گئیں سانپ کب دکھاؤ گے، مجھے کام پر بھی جانا ہے۔
میرے محترم آپ کام کر کے واپس آ جاؤ۔ اللہ کے فضل سے میں یہی کھڑا ہوں۔ آپ کو سانپ دکھائے بغیر نہیں جاؤں گا۔ آپ بے فکر ہو جاؤ۔ہاں تو بھائی صاحب اللہ تعالی نے اس کا وطن افریقہ بنایا ہے اور آپ کو سب سے اہم بات بتاؤں کہ ہر جانور کا تیل نہیں نکالا جا سکتا مگر قدرت نے سانڈے میں بہت زیادہ چربی رکھی ہے۔ اس چربی کو پگھلا کر ہم پہلے چھوٹی ہانڈی میں ڈالتے ہیں پھر بڑی ہانڈی میں اور اس کے بعد اس سے بھی بڑی ہانڈی میں۔ پھر اس کو 40 دن سورج کی روشنی میں رکھا جاتا ہے۔ پھر 41 ویں دن ہم باوضو ہو کر اس تیل کو چھانتے ہیں۔ آلائش ایک طرف اور تیل ایک طرف۔
ایک بڑے میاں سے برداشت نہیں ہوا اور وہ ساتھ والے سے سرگوشی میں کہنے لگے یہ ایسے ہی بولتا رہے گا۔ اس کے پاس سانپ وانپ کچھ نہیں ہے۔تیل والے نے یہ سرگوشی سن لی۔ ابا جی آپ میرے والد مرحوم کی عمر کے ہیں۔ آپ سے میں جھوٹ بولوں تو خدا مجھے وہاں بھیجے جہاں پانی نہ ملے۔ آپ تھوڑا سا صبر کر لیں میں سانپ دکھائے بغیر نہیں جاؤں گا۔ہاں تو بھائیو تھوڑا اور برداشت کر لیں جو باتیں میں بتا رہا ہوں انشاللہ آپ کے کام آئیں گی۔ مجھے بھی پتا ہے کہ آپ سب کا ٹائم کتنا قیمتی ہے۔
بھائی جان آپ چکن تکہ کھاتے ہو، کڑاھی مڑاھی کھاتے ہو، قلفی کھاتے ہو۔ سب پر کتنا پیسہ لگتا ہے اور اگلی صبح سب ضائع جاتا ہے۔ مگر میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میں نے اللہ کو جان دینی ہے آپ مجھ سے بس ایک شیشی لے لو۔یہ شیشی گھر پر مجھے 20 روپے کی پڑتی ہے مگر میں پہلی بار آپ کے پاس آیا ہوں اس لیے آپ کو صرف پانچ روپے کی دوں گا۔ میں خود نقصان اٹھا لوں گا مگر آپ کو دھوکا نہیں دوں گا۔ پانچ روپے کی کیا ویلیو ہے۔ اس میں تو سگریٹ کی پوری ڈبی بھی نہیں آتی۔بس ایک بار شیشی لے جاؤ۔ اس کی جم کے مالش کرو اور پھر جلوے دیکھو۔ اس کے بعد مجھے ڈھونڈتے ہوئے میرے پاس نہ آئے تو فقیر محمد پردیسی کا نام بدل دینا۔
پانچ سات تماشائیوں نے سانڈے کے تیل والے کے بیان سے متاثر ہو کر ایک ایک شیشی خرید لی اور پھر خان جی نے اس پٹارے کو ذرا سا ڈھیلا کیا جس کے چکر میں 90 فیصد مجمع اکٹھا ہوا تھا۔دیکھو بھائیو میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں آپ کو آخر میں دنیا کا سب سے زہریلا سانپ دکھاؤں گا جو اگر پتھر پر بھی پھونک مارے تو پتھر چور چور ہو جائے۔ اسی وجہ سے اس کا نام سنگچور سانپ پڑا ہے۔ اس کے منکے کی قیمت سات بادشاہیوں کے خزانے سے بھی زیادہ ہے۔ مگر میرے بزرگوں نے نصیحت کی تھی کہ اس منکے کو ایک کروڑ روپے میں بھی نہیں بیچنا۔
اب میں آیت الکرسی پڑھ کے یہ پٹارا کھولوں گا۔ آپ ذرا دور دور ہٹ جائیں کہیں یہ اڑ کر کسی پر حملہ نہ کر دے اور پھر آپ فقیر محمد پردیسی پر کیس کر دو۔سانڈے کے تیل والے نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے لب ہلنے لگے۔ مجمع دم سادھے تھوڑا دور دور ہو گیا۔ تیل والے نے آنکھیں کھولیں اور مجمعے کو اس انداز سے دیکھا جیسے آخری بار دیکھ رہا ہو۔ بھائیو زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ میں پٹارے کا ڈھکن کھولنے لگا ہوں۔ اللہ خیر کرے گا۔ یہ کہتے ہی فقیر محمد پردیسی سانڈا تیل فروش نے اچانک ڈھکن اٹھا دیا۔
سرپرائز کے بعد سرپرائز
مجمع ٹکٹکی باندھے پٹاری کو گھورتا رہا مگر اندر کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ فقیر محمد نے بھی دو منٹ انتظار کیا اور پھر پٹاری میں جھانکا۔ اچانک فقیر محمد کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ اپنے چھوٹے پر پھٹ پڑا۔ اوئے خنزیر، سانپ والا پٹارا کدھر ہے اس میں تو سانڈے پڑے ہوئے ہیں۔معاف کرنا بھائیو یہ میرا چھوٹا بہت ہی بے وقوف ہے۔ یہ اصلی والا پٹارا پریشانی میں گھر بھول آیا اور جلد بازی میں دونوں پٹارے سانڈے والے ہی اٹھا لایا۔ خدا کی قسم فقیر محمد پردیسی نے آپ سے جھوٹ نہیں بولا۔ انشااللہ اگلے جمعے کو میں نماز کے بعد لازماً دوبارہ اسی جگہ آؤں گا اور آپ کو سنگچور سانپ دکھاؤں گا۔
مجمع زیرِ لب بڑبڑاتے ہوئے چھٹنے لگا۔ جنھوں نے تیل کی شیشیاں خریدیں وہ کبھی خود کو کبھی شیشیوں کو اور کبھی فقیر محمد پردیسی کو ہونقوں کی طرح تک رہے تھے۔ فقیر محمد اور اس کے چھوٹے نے جلدی جلدی سامان سمیٹا اور گلی کا موڑ مڑ گئے۔تین محلے چھوڑ کر فقیر محمد کا چھوٹا دوبارہ زمین پر چادر بچھا رہا تھا۔