گیس پائپ لائن منصوبہ،پاکستان امریکہ کی خاطر ایران کو ناراض کر بیٹھا
داخلی و خارجی مسائل سے دوچار شہباز حکومت کو ایران نے بھی دھمکی لگا دی ہے۔پچھلے 11 سال سے التواء کا شکار ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کگ گلے کی ہڈی بنتا دکھائی دے رہا ہے امریکہ کی جانب سے کھلی مخالفت کے بعد سست روی کا شکار اس منصوبے کو بروقت مکمل نہ کرنے اور واضح پیشرفت نہ دکھانے پر ایران نے پاکستان کو ثالثی عدالت کو لے جانے کا عندیہ دیتے ہوئے اسلام آباد کو حتمی نوٹس تھما دیا ہے۔ روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق حیران کن پیشرفت میں ایران نے پاکستان کو یہ بتاتے ہوئے اپنا آخری نوٹس جاری کر دیا ہے کہ تہران کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ گیس کے حصول کے لیے 180 دن کی توسیع شدہ ڈیڈ لائن کے دوران اپنی زمین پر آئی پی گیس پروجیکٹ کے تحت پائپ لائن کی تعمیر نہ کرنے پر پاکستان کیخلاف اگلے ماہ یعنی ستمبر 2024 میں فرانسیسی قانون کے تحت پیرس کی ثالثی عدالت سے رجوع کرے۔ سینئر سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اس منصوبے کو 2014 سے 10 سال کی تاخیر کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ ایران اور پاکستان کے مابین جی ایس پی اے یعنی گیس سیلز پرچیز ایگریمنٹ پر 2009 میں فرانسیسی قانون کے تحت دستخط کیے گئے تھے اور پیرس میں قائم ثالثی عدالت دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کا فیصلہ کرنے کا فورم ہے۔ فرانسیسی ثالثی عدالت امریکی پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتی۔
واضح رہے کہ پاکستان کے انٹر اسٹیٹ گیس سسٹمز اور نیشنل ایرانی گیس کمپنی نے ستمبر 2019 میں نظرثانی شدہ معاہدے پر دستخط کیے تھے اور نظر ثانی شدہ معاہدے کے تحت اگر پائپ لائن کی تعمیر میں تاخیر ہوئی تو ایران کسی بین الاقوامی عدالت سے رجوع نہیں کریگا تاہم پاکستان 2024 تک اپنی پائپ لائن بچھائے گا جسکے بعد اسے ایران سے روزانہ 750 ملین کیوبک فٹ گیس حاصل ہوگی۔ نظرثانی شدہ معاہدے کے تحت پاکستان فروری تا مارچ 2024 تک اپنی سرزمین میں پائپ لائن کا حصہ کھڑا کرنے کا پابند تھا لیکن ایران نے پاکستان کو سہولت فراہم کی اور ستمبر 2024 میں ختم ہونے والی 180 دن کی ڈیڈ لائن میں توسیع کر دی تاہم حکام پھر بھی پائپ لائن بچھانے میں ناکام رہے۔
چنانچہ اب ایران نے اپنا حتمی نوٹس جاری کر دیا ہے کیونکہ قانون کے تحت اگر ایران ستمبر 2024 تک کسی نہ کسی بہانے ثالثی عدالت میں جانے کا اپنا حق استعمال نہیں کرتا تو وہ پاکستان کے خلاف قانونی جنگ شروع کرنے کا حق کھو دے گا۔ ذرائع کے مطابو ایران نے اس سے قبل نومبر-دسمبر 2022 میں پاکستان کو اپنا دوسرا قانونی نوٹس جاری کیا تھا جس میں پاکستان سے کہا گیا تھا کہ وہ فروری-مارچ 2024 تک اپنی سرزمین میں ایران-پاکستان گیس پروجیکٹ کا ایک حصہ تعمیر کرے یا 18 ارب ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کے لیے تیار رہے۔ اس سے قبل تہران نے فروری 2019 میں اسلام آباد کو ایک نوٹس بھیجا تھا کہ وہ مقررہ مدت میں پاکستان کی سرزمین میں پائپ لائن نہ بچھائے جانے پر ثالثی عدالت سے رجوع کرے گا۔ پہلے نوٹس میں بھی ایران نے پاکستان کو گیس سیلز پرچیز ایگریمنٹ کی جرمانے کی شق کو استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی۔ تاہم اب ایران نے پاکستان کو حتمی نوٹس جاری کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق شہباز حکومت کے اعلیٰ فیصلہ ساز ایرانی حتمی نوٹس پر کافی پریشان ہیں۔ اس سلسلے میں پیٹرولیم ڈویژن کے متعلقہ حکام نے اس بات کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے سر جوڑ لئے ہیں کہ ملک کو 10 روز قبل موصول ہونے والے نوٹس کے بعد کیسے جواب دیا جائے جبکہ دوسری جانب حکام نے ثالثی عدالت میں پاکستان کا مقدمہ چلانے کے لیے غیر ملکی قانونی فرموں میں سے ایک کی خدمات حاصل کرنے کے حوالے سے بھی مشاورت شروع کر دی ہے
خیال رہے کہ پاکستان نے گیس درآمد کرنے کے لیے ایران سے 1994 میں معاہدہ کیا تھا جس کے پاس روس کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ گیس کے دریافت شدہ ذخائر ہیں۔معاہدے کے تحت ایران سے پاکستان اور پھر بھارت تک گیس پائپ لائن بچھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن 2008 میں مبینہ امریکی دباؤ کے بعد بھارت کے اس منصوبے سے نکل جانے کے بعد یہ پاکستان اور ایران کے درمیان دو طرفہ منصوبہ رہ گیا ہے۔منصوبے کے تحت ایران نے اپنے پارس انرجی اکنامک زون سے پاکستانی سرحد تک کوئی 1100 کلو میٹر طویل پائپ لائن کا کام مکمل کر لیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس پائپ لائن پر ایرانی حکومت نے دو ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ تاہم پاکستان نے اب تک اس پائپ لائن پر کام شروع ہی نہیں کیا ہے۔ابتدائی طور پر پاکستان کے اندر 780 کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن بچھائی جانی تھی۔ لیکن 2019 میں فیصلہ کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں سرحد سے گوادر تک 80 کلو میٹر پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ لیکن اس پر بھی کام برسوں سے تاخیر کا شکار ہے۔