کیا نگراں وزرا عام انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں؟

ملک میں جہاں ایک طرف الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کا شیڈول جاری کردیا ہے، وہیں دوسری طرف ممکنہ امیدواروں نے بھی پارٹی ٹکٹس کے حصول کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں، تاہم پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 3 نگراں وزراء نے بھی عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنی وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ بطور نگراں وزیر مستعفی ہونے والوں میں نگراں وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی،نگراں کابینہ کے نوجوان وزیر کھیل و ثقافت نوابزادہ جمال رئیسانی اور نگراں مشیر معدنیات عمیر محمد حسنی شامل ہیں۔

تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نگراں کابینہ کے ارکان عام انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں؟مبصرین کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی استعفے دینے والے نگراں حکومت کے وفاقی و صوبائی وزراء عام انتخابات 2024 ءمیں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ نگران کابینہ کا حصہ رہنے والے افراد کے الیکشن لڑنے کی صورت میں ان کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ آفیسرسطح پر ہی مسترد ہو جائیں گے تاہم ایسے افراد ضمنی انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں،الیکشن کمیشن ذرائع کا مطابق آئین کے آرٹیکل 224کے تحت نگراں کابینہ کا کوئی بھی وفاقی یا صوبائی وزیر اور ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ ذرائع نے بتایا کہ نگراں حکومت کے ایسے تمام وزراء جنہوں نے استعفے دیکر عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے،اانھوں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو ان کی درخواستیں ریٹرننگ آفیسر کی سطح پر ہی مسترد کئے جانے کا امکان ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر برائے قانون و پارلیمانی امور کنور محمد دلشاد نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 224 کے تحت نگراں کابینہ کے وزیر اور مشیر عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے البتہ وہ اس کے 60دن بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔ کنور محمد دلشاد نے بتایا کہ نگراں کابینہ کے وزراء اور مشیر آئین کے آرٹیکل 223کے تحت عام انتخابات کےبعد جو سیٹیں خالی ہونگی اور جہاں دو حلقوں سے الیکشن لڑنے والے امیدوار ایک سیٹ جیتنے کے بعد دوسری سیٹ خالی کریں گے وہاں ہونیوالے ضمنی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ کنور دلشاد نے بتایا کہ نگراں کابینہ کے ارکان عام انتخابات کے بعد مارچ میں ہونے والے سینٹ الیکشن میں بھی حصہ لے سکتے ہیں ۔

دوسری جانب پاکستان میں قانون سازی اور انتخابات کے عمل کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ نگراں وزرا کا انتخابات میں حصہ لینا پاکستان کی جمہوری نظام کے ساتھ ایک دھوکا ہے۔ ’یہ نہیں ہونا چاہیے، یہ طاقت کا بے جا استعمال ہے اور آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔‘

احمد بلال محبوب کے مطابق ملکی تاریخ میں کبھی کسی نگراں وزیر نے استعفیٰ دے کر انتخابات میں حصہ نہیں لیا، نگراں وزرا کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیے۔’ہو سکتا ہے کہ آئین میں اس پر کوئی واضح ہدایات نہ ہو لیکن میرے خیال میں یہ واضح ہے نگراں وزرا کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اگر یہ معاملہ عدالت تک گیا تو عدالت فوری طور پر نگراں وزرا کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دے گی۔‘

دوسری جانب اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار ارشاد عارف کا کہنا ہے کہ ماضی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نگراں وزیر نے عام انتخابات میں حصہ لیا ہو لیکن ماضی میں کبھی ایسا بھی نہیں ہوا کہ نگراں حکومت میں سیاسی لوگ شامل کیے گئے ہوں۔’ایک دن پہلے ایک شخص سینیٹر ہوں اور دوسرے دن وزیراعظم بنا دیا جائے اور پھر وہ استعفٰی دے کر وزیراعظم کے طور پر کام کرنا شروع کر دے، سرفراز بگٹی تو سینیٹر رہے انہوں نے تو وہ عہدہ چھوڑنا بھی پسند نہیں کیا، پہلی دفعہ ایسی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں۔‘ارشاد عارف کے بقول میرا تو خیال ہے کہ آئینی اور قانونی طور پر سرفراز بگٹی یا اس طرح کے لوگ اس طرح استعفیٰ دے کر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ جب وہ نگراں حکومت کا حصہ بن گئے تو وہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہی نہیں رہے، جب قومی و صوبائی اسمبلیاں ٹوٹی تو یہ نگراں حکومت الیکشن کرانے کے لیے وجود میں ائی۔’الیکشن اگر وقت پر نہیں بھی ہوئے تو یہ اس سسٹم کا حصہ تھے جس نے الیکشن میں حصہ نہیں لینا تھا کیونکہ آئین میں لکھا ہے کہ نگراں حکومت کے لوگ یا ان کے رشتہ دار، قریبی خاندان کے فرد بھی عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے، اس طرح یہ آئین کی خلاف ورزی ہے لیکن آج کل

نواز شریف کو تاحیات نااہل کرنے والے کینہ پرور جج کون؟

پاکستان میں آئین کو پوچھتا کون ہے۔‘

Back to top button