نواز شریف کو تاحیات نااہل کرنے والے کینہ پرور جج کون؟
سینئر صحافی اسد علی طور کا کینا ہے کہ پانامہ کیس کی تحقیقاتی جے آئی ٹی کا حصہ ن لیگ سے تعصب اور نفرت کے جذبات رکھنے والوں کو بنایا گیا تا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل کیا جاسکے۔ عدلیہ کے کینہ پرور جج صاحبان نے نواز شریف اور شریف خاندان کو سزائیں دلوائیں۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں اسد طور کا کہنا تھا کہ جن جج صاحبان نے مل کر نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کی کارروائیوں کی سماعت کی ان تمام جج صاحبان کے دل میں نواز شریف اور شریف خاندان کے لیے تعصب اور نفرت کے جذبات تھے جنہوں نے مل کر ایک الیکٹڈ وزیراعظم کا سیاسی قتل کیا۔صحافی نے کہا کہ پانامہ لیکس کے 5 لازوال کردار تھے جن میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، سابق چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس اعجازالاحسن شامل تھے۔ عظمت سعید شیخ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نیب میں پراسیکیوٹر رہے تھے۔ نیب بنائی ہی سیاسی انجینئرنگ کے لیے گئی تھی تو اس سیاسی انجینئرنگ کا ایک ٹول عظمت سعید شیخ تھے۔ انہوں نے بطور نیب پراسیکیوٹر نواز شریف اور شریف خاندان کے بارے میں سخت الفاط میں تحریریں لکھ رکھی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں بھی ان کا مرکزی کردار تھا۔ پھر پانامہ لیکس والے بنچ میں بھی یہ بطور جج بیٹھے تو ان کی رائے جانبدار تھی۔ ذرائع نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایسی ایک ڈیل کرنا چاہتے تھے کہ ان کے ساتھ دو اور ہم خیال جج بھی بنچ میں شامل ہو جائیں گے۔ جب نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے فیصلہ آیا تو اس وقت فیصلہ 2-3 سے آیا تھا۔ 3 جج صاحبان کا کہنا تھا کہ ابھی نااہلی نہیں کرنی بلکہ مزید تحقیقات ہونی چاہئیں اور معاملہ جے آئی ٹی کو بھیجا جائے۔
انہی نجی ذرائع سے اس بارے میں پوچھا کہ آیا یہ وہی تین جج ہیں جن کے بارے میں عظمت سعید شیخ ڈیل کرنا چاہ رہے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ عظمت سعید تب فوج کے دباؤ سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق پانامہ کیس کی سماعت کے دوران عظمت سعید شیخ کو دل کی تکلیف بھی ہوئی تھی جس کے باعث انہیں راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل ہونا پڑا تھا جہاں ان کی انجیوپلاسٹی ہوئی تھی۔ اس وقت جسٹس عظمت سعید کے اہل خانہ موجود نہیں تھے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے ان کی تیمارداری کی اور جب تک ان کے اہل خانہ آ نہیں گئے تب تک جسٹس عظمت سعید کے ساتھ رہے۔ اس وقت کچھ لوگ ان سے ملنے ہسپتال آئے تو جسٹس عظمت نے انہیں بتایا کہ ان پر شدید دباؤ ہے جو کہ یقینی طور پر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا تھا جس میں قمر جاوید باجوہ، فیض حمید اور دیگر اشخاص شامل تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس عظمت سعید نے اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف خوب بغض بھی نکالا۔ انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ جو کچھ بعد میں کیا وہ ان کی کم ظرفی کی دلیل ہے۔
اس بارے میں سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ایک ن لیگی رہنما ان سے ملنے گئے تھے اور جسٹس عظمت سعید نے کہا تھا کہ اگر آپ نواز شریف کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں کہیں کہ آپ استعفیٰ دے دیں۔ ن لیگ نے اس پیغام کو آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کے اس پیغام کے ساتھ ملا کر پڑھا جو انہوں نے ملک ریاض کے ذریعے 2014 کے دھرنوں کے وقت اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو بھجوایا تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ اس پیغام کے بعد ن لیگ کو یہ واضح ہو گیا کہ 2014 میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی یہی خواہش تھی اور 2016 میں بھی۔ میاں صاحب بھی خاصے ضدی انسان ہیں تو انہوں نے بھی سوچا کہ فوج کے کہنے پر تو کبھی بھی استعفیٰ نہیں دوں گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا۔
جسٹس عظمت سعید ہی تھے جنہوں نے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ظفر حجازی کو واٹس ایپ پر کال کر کے کہا تھا کہ فلاں فلاں ممبر کو آپ ایس ای سی پی کی جے آئی ٹی میں شامل کریں گے۔ یہ وہ ممبران تھے جن کی اہلیہ پی ٹی آئی کی رکن تھیں اور وہ مسلم لیگ ن اور شریف خاندان سے نفرت اور تعصب رکھتے تھے۔ اوپن کورٹ میں ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں ہمیں ہیرے چاہئیں۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس اعجازالاحسن کے بھائی میجر اظہارالاحسن 90 کی دہائی کے آخری حصے میں اتفاق فاؤنڈری میں مینجر مارکیٹنگ تھے۔ اس دور میں ان کی تنخواہ 60 ہزار پاکستانی روپے تھی جس کی ویلیو آج کے زمانے کے قریب قریب 20 لاکھ تک بنتی ہے۔ ان کی نوکری کے مطابق سیلز کے کچھ ٹارگٹس تھے جو وہ پورے نہیں کر پائے جس کی وجہ سے انہیں اتفاق فاؤنڈری سے فارغ کر دیا گیا۔ شریف خاندان کی جلاوطنی کے دوران حسین نواز نے سعودی عرب میں ایک سٹیل ملز لگائی تھی۔ 2007-08 کے دوران جب نواز شریف اور شہباز شریف وطن واپس آ گئے تو غالبا 2010 میں حسین نواز کی سعودی عرب والی سٹیل ملز میں شلوار قمیض میں ملبوس 3 نامعلوم افراد ناصرف داخل ہوئے بلکہ وہ ملز میں گھوم پھر کر جائزہ لے رہے تھے۔ حسین نواز ان کے پاس چلے گئے۔ سلام دعا کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک اظہارالاحسن تھے اور باقی دو 92 چینل کے مالکان (مدینہ شوگر یا احسان گھی والے) میں سے تھے۔ یہ علم نہیں ہو سکا کہ وہ فیکٹری کا صرف جائزہ لے رہے تھے یا پھر جاسوسی کر رہے تھے تاہم حسین نواز انہیں اپنے دفتر تک لے گئے اور ان کی تواضع کے بعد انہیں وہاں سے رخصت کر دیا۔
ن لیگ کے قریبی ذرائع یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ چونکہ جسٹس اعجازالاحسن کے بھائی کو نوکری سے نکالا گیا تھا تو ان کے دل میں ن لیگ اور شریف خاندان کے لیے تعصب پہلے سے ہی تھا۔ اس کے لیے وہ اس حد تک گئے کہ انہوں نے جج ارشد ملک کو اپنے چیمبر میں بلایا۔ اس وقت پانامہ کیس کا سپریم کورٹ کے حکم پر احتساب عدالت میں ٹرائل چل رہا تھا۔ اس میں ایون فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں انہیں سزائیں بھی دلوائی گئیں۔ جج بشیر کے چیمبر سے آئی ایس آئی کے کرنل کو نکلتے دیکھا گیا۔ جبکہ جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو لیک ہوئی جس میں انہوں نے اعتراف کیا۔ اسی ٹرائل کے نگران جج جسٹس اعجازالاحسن تھے۔ انہوں نے جج ارشد ملک سے شریف خاندان کے کیس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتا دیا کہ کیا کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔ تو جسٹس اعجازالاحسن نے انہیں کہا کہ نہیں ایسے نہیں ہو گا۔ آپ نے فلاں فلاں مدت کی سزا ان کو دینی ہے۔ انہیں جیسے ہدایات دی گئیں، انہوں نے ویسے ہی سزائیں سنائیں۔اس وقت آئی ایس آئی کی جانب سے ارشد ملک کو اٹھوایا گیا اور انہیں ان کی ایک غیر اخلاقی ویڈیو دکھا کر مجبور کیا گیا کہ آپ نے یہ فیصلہ سنانا ہے۔ صحافی نے کہا کہ ایک جج کی شراب نوشی کی فلم بھی اسٹیبلشمنٹ کے پاس تھی اور وہ اُس سے بلیک میل ہو رہے تھے۔
اسد طور کے مطابق سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے کے ریمارکس میں تین بار منتخب شدہ وزیر اعظم کو گاڈ فادر یعنی مافیا کا سربراہ لکھ دیا۔ جسٹس عظمت سعید نے نواز شریف اور شریف خاندان کو سسیلین مافیا لکھ دیا۔ آصف سعید کھوسہ کی سابق وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ خاندانی رقابت تھی۔ جسٹس گلزار احمد جب چیف جسٹس تھے تو ایک روز ججز کے ٹی روم میں بیٹھے چائے پیتے ہوئے شریف خاندان اور آصف زرداری کے بارے میں ‘چور، لٹیرے’ جیسے ریمارکس دے رہے تھے تب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں ٹوکا اور پوچھا کہ کیا آپ نے آج تک کسی کرپشن کیس میں انہیں سزا دی ہے؟ آپ کو یقین ہے کہ یہ لوگ کرپٹ ہیں؟ تو وہ گڑبڑا گئے اور کہا کہ نہیں۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو کبھی بھی شریف خاندان، زرداری اور بھٹو خاندان کے کسی مقدمے کی سماعت نہیں کرنی چاہئیے کیونکہ آپ کی رائے اس حوالے سے جانبدار ہے۔ اس کے بعد قاضی فائز عیسیٰ وہاں سے چلے گئے تو جسٹس گلزار احمد کو جلال آ گیا اور انہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کو خوب برا بھلا کہا اور گالیاں دیں جو قاضی فائز عیسیٰ نے سنیں بھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے بعد معاملہ ہاتھا پائی تک جا پہنچا تھا لیکن دیگر جج صاحبان نے بیچ بچاؤ کروایا۔
صحافی نے کہا کہ ذرائع کہتے ہیں کہ ایک دن جسٹس گلزار احمد کو ایک حادثہ پیش آیا اور وہ حادثے میں بال بال بچے۔ کچھ وکلا ان کی تیمارداری کے لیے گئے تو انہوں نے اعتراف کیا کہ اللہ نے جان تو بچا لی لیکن مجھ سے ایک غلطی سرزد ہوئی ہے اور وہ یہ کہ میرے ہاتھوں شریف خاندان کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے۔جب جسٹس عظمت سعید کو دل کا دورہ پڑا اور انہوں نے موت کو قریب سے دیکھا تو انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ ہم پر نواز
شریف کو نااہل کرنے کے لیے بہت دباؤ ہے