مذاکرات کے نتیجے میں عمران کو این آر او نہ دینے کا حکومتی اعلان
تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کئی روز کی کوششوں کے بعد پہلا مذاکراتی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد کرنے میں کامیاب تو ہو گئی ہے لیکن حکومتی حلقوں نے واضح کیا ہے کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی سازش پر معافی تک نہ مانگنے والے عمران خان کو کسی قسم کا این آر او نہیں دیا جائے گا اور انہیں عدالتوں میں اپنے خلاف دائر تمام کیسز کا سامنا کرنا ہوگا۔
مذاکراتی اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے واضح کیا کہ 9 مئی کے حملوں کی سازش کرنے والے عمران خان کو عدالتوں میں کیسز کا سامنا کرنا ہو گا اور مذاکرات کے نتیجے میں ان سمیت کسی کو این ار او دیے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کے ترجمان بیرسٹر عقیل ملک نے بھی واضح کیا ہے کہ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ مذاکراتی کمیٹیوں کے اجلاس میں نہ تو زیر بحث آیا اور نہ ہی آگے چل کر ایسا کوئی امکان ہے۔
23 دسمبر کو حکومت کی طرف سے نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے تقریباً تمام اراکین اس اجلاس میں موجود تھے تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی کی طرف سے صرف تین اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ ان میں اسد قیصر، صاحبزادہ حامد رضا اور راجہ ناصر عباس شامل تھے۔ جو شریک نہیں ہوئے ان میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، سلمان اکرم راجہ، حامد خان اور خیبر پختون خوا کے وزیر اعلٰی گنڈاپور شامل ہیں۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں اسد قیصر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ ممبران مقدمات میں پیشی، عدالتی مصروفیات اور ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شامل نہیں ہو پائے۔ دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے آئندہ اجلاس 2 جنوری کو بلانے پر اتفاق کیا ہے جس میں اپوزیشن اپنے مطالبے تحریری صورت میں حکومت کو دے گی۔
اجلاس کے بعد پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے بتایا کہ انھوں نے حکومت سے جیل میں قید عمران خان سے ملاقات کرانے میں سہولت دینے کا مطالبہ کیا جو تسلیم کر لیا گیا۔ انھوں نے دعوی کیا کہ اجلاس میں ان کی طرف سے مطالبات واضح طور پر سامنے رکھے گئے جن میں سرِ فہرست ’عمران خان سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے حکومت سے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر انکوائری کرانے کا بھی مطالبہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی جماعت کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ حکومت انکے انتخابی مینڈیٹ کو تسلیم کرے اور نئے الیکشن ہونے چاہئیں۔
تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد قیصر نے جتنے بھی مطالبات کیے ہیں وہ ناقابل قبول ہیں کیونکہ وہ حکومتی دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کے مطابق عمران خان اور ان کے دیگر ساتھیوں کی رہائی تب ہی ممکن ہے جب وہ عدالتوں میں زیر سماعت کیسز میں بری ہو جائیں۔ جہاں تک 9 مئی 2023 کے حملوں کے الزام کا تعلق ہے تو اس بارے فوجی قیادت بہت زیادہ حساس ہے اور اسی لیے ائی ایس ائی کے سابق چیف فیض حمید کو بھی گرفتار کیا گیا۔ فوجی عدالتوں نے حال ہی میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے جن سویلینز کو سزائیں سنائی ہیں ان کے حملوں میں ملوث ہونے کی فوٹیجز موجود ہیں لہذا اس معاملے پر بھی کوئی بات چیت ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف نے الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کا جو مطالبہ کیا ہے اس پر بھی عمل درامد ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عمران دور حکومت میں جب اپوزیشن نے یہ الزام عائد کیا تھا تو تب بھی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی تھیں۔
چنانچہ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوں گے جس کے نتیجے میں عمران سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کر سکتے ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی احتجاج کی کالز کی مسلسل ناکامی کے بعد ان کی سول نافرمانی تحریک کامیاب ہونے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ خیال رہے کہ عمران خان نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے ’جسے وقتی طور پر موخر کیا گیا ہے اور ابھی اس کی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔