اپنے بل دینے والا عمران دوسروں کو سول نافرمانی پر کیوں اکساتا ہے؟
اپنی تمام تر احتجاجی تحریکوں کی ناکامی کے بعد سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی دھمکی دینے والے عمران خان شاید بھول گئے کہ جب پچھلی مرتبہ انہوں نے ایسی ہی کال دے کر اپنے گھر کا بجلی کا کنکشن کٹوایا تھا تو ان کی چار دن میں ہی چیخیں نکل گئی تھیں، اور انہوں نے پانچویں دن بل جمع کروا کر اپنا کنکشن بحال کروا لیا تھا۔ ایسے میں انہیں عوام سے بل جمع نہ کروانے اور اپنے کنکشن کٹوانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے۔ سول نافرمانی کی تحریک اس خطے میں نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی اور نہ ہی اب عمران کو اس سے کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہو سکے گا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف لکھاری اور بلال غوری کہتے ہیں کہ عمران ایک ایسی دلدل میں دھنس چکے ہیں جہاں سوچے سمجھے بغیر ہاتھ پائوں مارنے کے بجائے کچھ توقف کی ضرورت ہے۔ وہ ایک مضطرب اور بے چین شخص ہیں جسے جیل سے باہر آنے کی جلدی ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنی فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے شیخ مجیب الرحمن کی طرح سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی دھمکیاں دینا شروع کر رکھی ہیں۔ تاہم ابھی انکا جیل سے نکلنا نظر نہیں آتا جس کی بنیادی وجہ ان کی احتجاجی اور انتشاری سیاست ہے۔
بلال غوری کے مطابق اس خطے میں پہلی سول نافرمانی تحریک مہاتما گاندھی نے 1930 میں چلائی جو ایک برس تک چلی اور اس دوران 110 سے زیادہ لوگ مارے گئے، گاندھی سمیت 60 ہزار لوگ پابند سلاسل ہوئے، آخر کار گاندھی کو رہا کر دیا گیا تاکہ وہ ستمبر تا دسمبر 1931ء لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کر سکیں۔ لیکن تب بھی محمد علی جناح کا خیال یہی تھا کہ سول نافرمانی تحریک احتجاج کا موثر ذریعہ نہیں ہے اور یہ راستہ تباہی و بربادی پر منتج ہوگا۔ بعد میں ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ گاندھی کو اپنی تحریک کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل نہ مل سکے۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ ان کے بعد یہ اعزاز تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے حصے میں آیا۔ احتجاج کی فائنل کال ناکام ہونے کے بعد وہ جیل سے سول نافرمانی تحریک کا آغاز کرنے جا رہے ہیں اور بتایا جارہا ہے کہ اس سلسلے میں پہلے مرحلے پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کہا جائے گا کہ وہ پاکستان میں ترسیلات زر بھیجنا چھوڑ دیں۔ عمران کی حالیہ مہم جوئی کا نیلسن منڈیلا ،مارٹن لوتھر کنگ ،گاندھی یا پھر باچا خان سے موازنہ کرنے کے بجائے ان کی سابقہ تحریک کا انجام سامنے رکھنا چاہئے۔
بلال غوری یاد دلاتے ہیں کہ عمران خان 2014ء میں دیئے گئے دھرنوں کے دوران بھی سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا شوق پورا کرچکے ہیں۔ انہوں نے اسلام اباد کے ڈی چوک میں اپنے کنٹینر پر نہ صرف بجلی کا بل جلایا تھا بلکہ اپیل کی تھی کہ کوئی شخص ٹیکس نہ دے، بلوں کی ادائیگی کا سلسلہ روک دیا جائے اور سمند رپار پاکستانی پیسے بھجوانا چھوڑ دیں۔ ہم غیر ملکی ترسیلات زر سے متعلق مبالغوں پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے بلوں کی ادائیگی کا معمہ حل کر لیں۔ اگست اور ستمبر 2014ء میں بجلی کے بل ادا نہ ہونے پر اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی نے بنی گالا کو بجلی کی فراہمی منقطع کر دی۔ البتہ لاہور کے زمان پارک میں عمران خان کی رہائشگاہ کا بجلی کنکشن بچانے کے لیے بجلی کا بل ادا کرتے ہوئے یہ وضاحت دی گئی کہ چونکہ وہاں عمران خان کی ہمشیرہ رہتی ہیں اس لئے انہوں نے یہ بل ادا کیا ہے حالانکہ وہاں خود عمران خان کی رہائش تھی۔
اسکے علاعہ شیخ رشید سمیت تحریک انصاف کے بیشتر رہنمائوں نے اس اعلانن کو سنجیدگی سے نہ لیا اور اپنے بل ادا کرتے رہے۔ لیکن بہت جلد تب انقلاب کو سردی لگ گئی جب بنی گالا میں عمران کی رہائش گاہ کا بجلی کنکشن بحال کروانے کیلئے واجب الادا رقوم جمع کروا دی گئی۔ اس کی یہ توجیہہ پیش کی گئی کہ عمران تو برداشت کرلیں گے مگر بچے گیزر کے بغیر ٹھنڈے پانی سے نہیں نہا سکتے حالانکہ ان کے بچے تو لندن میں قیام پذیر تھے۔
بلال غوری کے مطابق یہ سب کچھ یاد دلوانے کا مقصد محض یہ ہے کہ سول نافرمانی ایسا ناکارہ اور چلا ہوا کارتوس ہے کہ اس سے کسی قسم کی کوئی اُمید رکھنا عبث ہے۔اب آتے ہیں غیر ملکی ترسیلات زر کی طرف جن کے حوالے سے طفلان انقلاب ہی نہیں خود بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ وہ پاکستانی شہری جو اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر پردیس جاکر محنت مزدوری کرتے ہیں یا پھر ایسے پاکستانی شہری جنہوں نے وہاں جا کر اپنا کاروبار کیا اور ترقی و خوشحالی کی منازل طے کیں، یہ سب قابل قدر ہیں لیکن یہ تاثر دینا کہ وہ اپنی کمائی پاکستان بھیج کر ملک یا قوم پر کوئی احسان کر رہے ہیں، سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔مجھے بتائیے کیا یہ رقوم حکومت پاکستان کے خزانے میں بھجوائی جاتی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان پاکستانیوں کے عزیز و اقارب یہاں نہ ہو ں تو وہ پھوٹی کوڑی بھی نہ بھیجیں۔
غیر ملکی ترسیلات زر اس لئے بھجوائی جاتی ہیں کہ ان کے اہلخانہ روزمرہ کی ضروریات پوری کر سکیں۔وہ لوگ جن کے بیوی، بچے، ماں، باپ اور بہن بھائی یہاں ہیں، اگر وہ چاہیں بھی تو کیا ایسا ممکن ہے کہ دو چار ماہ اپنے گھروں میں پیسے نہ بھجوائیں؟اگر یہ فیصلہ کربھی لیا جائے تو کتنی دیر تک اس پر کاربند رہا جاسکتا ہے؟آخر کار انہیں یہ پیسے بھجوانے ہوں گے تاکہ جن کی خاطر وہ پردیس کاٹ رہے ہیں، ورنہ وہ بھوکے نہ مر جائیں۔اب جب یہ بات کی جائے تو نونہالان انقلاب کہتے ہیں ضروری نہیں کہ پیسے قانونی طریقے سے بھیجے جائیں ،ہنڈی یا حوالہ کے غیر قانونی طریقے سے بھی رقوم بھجوائی جاسکتی ہیں۔بہت خوب، اسی دلیل سے اندازہ لگالیں کہ ان انقلابیوں کو آپ کی کتنی فکر ہے۔آپ کی محنت سے کمائی ہوئی دولت ہنڈی یا حوالہ جیسے غیر قانونی طریقے سے ڈوب جائے ،انہیں کوئی فکر نہیں۔انہیں تو بس یہ فکر ہے کہ کسی طرح موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو گھٹنوں پر لایا جائے جو ممکن نظر نہیں آتا۔