حکومتی ردعمل: بلوچ مظاہرین کی رہائی کا اقوم متحدہ کا مطالبہ مسترد

پاکستانی دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کی جانب سے گرفتار شدہ بلوچ کارکنان کی رہائی اور انکے خلاف کریک ڈاؤن بند کرنے کا مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہ غیر تصدیق شدہ رپورٹس کی بنیاد پر مبنی مطالبہ ہے جسکی کوئی بنیاد نہیں۔ دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پر تشدد احتجاج میں ملوث عناصر دہشت گردوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کر رہے ہیں لہذا ریاست کی رٹ برقرار رکھنے کے لیے ہر قانونی طریقہ استعمال کیا جائے گا۔

اس سے پہلے اقوام متحدہ نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستانی حکومت حالیہ مظاہروں کے بعد حراست میں لیے گئے بلوچ حقوق کے کارکنوں کو رہا کرے اور مبینہ جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کے دیگر مسائل کے خلاف مظاہروں پر کریک ڈاؤن کو بند کرے۔ دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطالبے پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان بظاہر غیر تصدیق شدہ میڈیا رپورٹس پر مبنی ہے۔ اس سے پہلے پچھلے ہفتے پولیس نے کوئٹہ میں دھرنا دینے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل، واٹر کینن اور خالی گولیوں کا استعمال کیا تھا۔ تاہم صوبائی حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی دونوں نے اس واقعے میں تین افراد کی ہلاکت اور 13 کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا۔  پولیس نے بھی تقریبا 10 اہلکاروں کا مظاہرین کے ہاتھوں زخمی ہونے کا دعوی کیا۔

 گرفتار ہونے والوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شامل ہیں، جو انسانی حقوق کی ایک علمبرادر ہیں اور بلوچ قوم پرستوں کے حقوق کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ کو 150 دیگر افراد کے ساتھ دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا، جس کے خلاف بلوچستان کے مختلف شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی ہوئی۔ کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ایک اور متحرک کارکن سمی دین بلوچ کو بھی احتجاج کرنے پر حراست میں لیا گیا، جنہیں بعد میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے رہا کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود انہیں امن عامہ کو خراب کرنے کے الزام کے تحت دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔

جنیوا سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کے آزاد ماہرین کے ایک گروپ نے کہا کہ حکومت پاکستان کو "حراست میں لیے گئے بلوچ انسانی حقوق کے محافظوں کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے اور پرامن مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن بند کرنا چاہیے۔” اس مشترکہ بیان میں ماہرین نے کہا کہ "ہم گزشتہ کئی مہینوں سے بلوچ کارکنوں کی مبینہ گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کی بڑھتی ہوئی تشویشناک رپورٹس پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جبکہ گزشتہ چند دنوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات نے ہمارے خدشات میں نمایاں اضافہ کیا ہے بیان میں مزید کہا گیا کہ ماہرین نے بلوچستان کے ضلع بولان میں رواں ماہ جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملے کے تناظر میں بی وائی سی کی قیادت کے خلاف کارروائیوں کے بڑھتے ہوئے سلسلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بیان کے مطابق اسی واقعے کے بعد، بلوچ یکجہتی کمیٹی سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کئی سرکردہ  کارکنوں کو محکمہ انسداد دہشت گردی نے گرفتار کیا یا انہیں جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔

گزشتہ ہفتے کے پرتشدد واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا کہ ایک بار پھر پرامن احتجاج کے خلاف ریاستی ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ "ہم 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس پر دہشت گردانہ حملے کے گہرے تکلیف دہ اثرات کو سمجھتے ہیں اور ہم اس حملے کے متاثرین سے اپنی گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔” لیکن ماہ رنگ اور سمی بلوچ کی حراست کا حوالہ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا کہ وہ پرامن اجتماع کے حق کو استعمال کرنے پر حراست میں لیے گئے انسانی حقوق کے محافظوں کی فلاح و بہبود کے لیے "انتہائی فکر مند” ہیں۔ ماہرین نے کہا کہ "ہم پاکستانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ انہیں فوری طور پر رہا کریں اور انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف انسداد دہشت گردی یا عوامی تحفظ کے اقدامات کا غلط استعمال کرنے سے گریز کریں۔ ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلا تاخیر اس بات کی وضاحت کریں کہ مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کا نشانہ بننے والے تمام افراد آخر کس حال میں ہیں ان کا ٹھکانہ کہاں ہے۔”

دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کے ماہرین کے بیان کے جواب میں کہا کہ یہ تبصرے "منتخب اور غیر تصدیق شدہ میڈیا رپورٹس” پر مبنی ہیں اور اس میں "توازن اور تناسب” کا فقدان ہے۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ "ہم نے اقوام متحدہ کے بعض ماہرین کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز کا نوٹس لیا ہے، "یہ ضروری ہے کہ اس نوعیت کے عوامی بیانات معروضیت کے اصولوں کے مطابق یوں، سلیکٹیو تنقید سے گریز ضروری ہے، حقائق کی درست عکاسی بھی لازمی ہے، اور صورتحال کے مکمل تناظر کو دیکھنا اور سمجھنا بھی ضروری ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے تبصروں میں دہشت گردانہ حملوں سے ہونے والی شہری ہلاکتوں کو کم کر کے پیش کیا گیا ہے اور ایسے شرپسندوں کے جرائم کو نظر انداز کر دیا گیا، جو جان بوجھ کر عوامی خدمات میں خلل ڈالتے ہیں، نقل و حرکت کی آزادی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کرتے ہیں۔

دفتر خارجہ نے اپنے جواب میں کہا کہ نام نہاد ماہرین کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ معصوم شہریوں کا قتل عام کرنے والے دہشت گرد عناصر کے ساتھی محض مظاہرین نہیں ہیں بلکہ لاقانونیت اور تشدد کی ایک وسیع مہم میں سرگرم طور پر شریک ہیں۔ ان کی قانون کی خلاف ورزیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ پر تشدد احتجاج میں ملوث یہ عناصر دہشت گردوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کر رہے ہیں۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ ان کے گٹھ جوڑ کا تازہ ترین ثبوت کوئٹہ کے ڈسٹرکٹ ہسپتال پر ان کا دھاوا تھا، جہاں سے جعفر ایکسپریس کے یرغمالیوں کو بچانے کے آپریشن کے دوران مارے گئے پانچ دہشت گردوں کی لاشیں زبردستی چھین لی گئیں۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون واضح طور پر افراد، اداروں یا گروہوں کو دوسروں کے حقوق اور سلامتی کی خلاف ورزی کرنے کے لیے ہتھیاروں کے استعمال سے منع کرتا ہے اور خودمختار ریاستوں کے عوامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اور ضروری کارروائی کرنے کے حق کو مضبوطی سے برقرار رکھتا ہے۔

پاکستان سے بیرون ملک جانے والے بھکاریوں کا معاملہ سنگین ہو گیا

بیان کے مطابق "حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی جانوں اور سلامتی کی حفاظت کرے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بے گناہ شہری غیر ملکی حمایت یافتہ دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ حکومت نے نسلی یا مذہبی پس منظر سے قطع نظر معاشرے کے تمام طبقات کے لیے سماجی اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے مسلسل پالیسیوں پر عمل کیا ہے۔”

Back to top button