کیا حکومت آئین شکنی پر آرٹیکل 6 کی کارروائی کرے گی؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے قومی اسمبلی کی بحالی کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا موجودہ حکومت آئین شکنی کے مرتکب صدر، وزیر اعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرے گی؟ سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جانب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کروانے اور پھر سابق وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ نے بالآخر اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے اس میں آرٹیکل 6 کا ذکر بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ اسکے اطلاق کے حوالے سے فیصلہ موجودہ پارلیمنٹ کو کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں ڈپٹی سپیکر، صدر اور وزیراعظم کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے رد کیا ہے۔ اسکے علاوہ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنے اختلافی نوٹس میں صدر عارف علوی، سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو آئین شکنی پر رگڑا دیتے ہوئے سخت ترین الفاظ استعمال کیے ہیں۔ سب سے سخت الفاظ جسٹس مظہر عالم میاں خیل کے ہیں جنہوں نے آرٹیکل 6 تک کا ذکر کر ڈالا ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ صدر، وزیر اعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی جانب سے کیے گئے تمام اقدامات غیر آئینی تھے اور انہوں نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے کیا جس کے بعد ان پر آرٹیکل 6 لگانا یا نہ لگانا بہرحال پارلیمان کا ہی فیصلہ ہوگا۔ انہوں نے کہا پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ ایسے غیر آئینی اقدامات کے لئے دروازہ کھلا رکھنا چاہتی ہے یا پھر مستقبل میں اس عمل کو دہرائے جانے سے روکنے کے لئے کوئی ایکشن لیتی ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ عمران کے سازشی بیانیے کے لیے دھچکہ
یاد رہے کہ 3 اپریل 2022 کو غیر قانونی، غیر آئینی طور پر تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائے بغیر اسے مسترد کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے اجلاس برخاست کرنے کے بعد فوری طور پر سابق وزیر اعظم عمران خان ٹیلی وژن پر صدرِ پاکستان عارف علوی کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجنے کا اعلان کیا تھا حالانکہ اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہو جانے کے بعد وہ صدرِ کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجنے کے مجاذ نہیں تھے۔ بحر حال انہیں پہلے سے علم تھا کہ ڈپٹی سپیکر کیا فیصلہ دینے جا رہے ہیں، لہٰذا انہوں نے قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری بھی پہلے ہی تیار رکھی ہوئی تھی اور پھر چند ہی منٹ کے اندر ٹی وی پر خبریں چلنا شروع ہو گئیں کہ صدرِ نے عمران خان کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری منظور کر لی ہے۔ عمرانڈو صدر کہلانے والے عارف علوی چاہتے تو اس پر دو دن تک غور کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا اور پہلے سے طے کردہ سازش کے تحت ایک لمحہ ضائع کیے بغیر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر دیے۔ یاد رہے کہ ڈپٹی سپکیر قومی اسمبلی نے بھی ایک تحریری فیصلہ پڑھ کر سنایا تھا اور اس فیصلے پر دستخط بھی ان کے اپنے نہیں بلکہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے تھے۔
سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں انہی حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صدر، وزیر اعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے تمام تر فیصلوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے رد کر دیا، لیکن جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنے اختلافی نوٹس میں یہ حرکت کرنے والوں کے حوالے سے آرٹیکل 6 تک کا ذکر کر ڈالا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں زیادہ تر ججز نے سائفر کے معاملے پر واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ پاکستان کے امریکہ میں تب کے سفیر کی جانب سے لکھا گیا مراسلہ سازش کے الزام کو ثابت کرنے کے لئے ناکافی تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ31 مارچ 2022 کو پارلیمانی کمیٹی برائے نیشنل سکیورٹی اور خود حکومتی بنچز پر بیٹھے تحریکِ انصاف کے ارکان نے اس معاملے پر کوئی خاص گرمجوشی نہیں دکھائی اور نہ ہی کسی قسم کی انکوائری اور تحقیقات کا حکم دیا۔
البتہ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تفصیلی فیصلے میں کچھ معاملات پر سابقہ حکومتی جماعت کے ساتھ نرمی برتی گئی ہے۔ مثلاً سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی جانب سے کیے گئے تین غیر قانونی اقدامات سامنے رکھے گئے۔ پہلا یہ کہ ارکان اسمبلی کی جانب سے تحریری مطالبے کے باوجود سپیکر نے 14 دن کے اندر اندر اجلاس نہ بلایا۔ دوسرا یہ کہ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے بیرونی سازش کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں کو نہیں سنا گیا اور تیسرا یہ کہ ڈپٹی سپیکر نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائے بغیر اسے مسترد کر دیا۔ اب پہلے معاملے پر چیف جسٹس تفصیلی فیصلے میں لکھتے ہیں کہ اجلاس 14 دن کے اندر تو نہیں بلایا گیا لیکن بالآخر بلا لیا گیا، لہٰذا یہ مسئلہ ایک طرف رکھ دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کہا گیا جب کہ عدالت خود آئین سے انحراف کو تسلیم کر رہی ہے؟ اس حوالے سے چیف جسٹس نے نہ تو کوئی قانونی جواز دینے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی آئین سے انحراف کرنے پر کوئی سزا تجویز کی۔
اسی طرح ڈپٹی سپیکر کی جانب سے حکومتی جماعت کا یہ مؤقف تسلیم کر لینا کہ اپوزیشن جماعتوں نے بیرونی طاقتوں کی ایما پر تحریکِ عدم اعتماد جمع کروائی براہِ راست غداری کا الزام ہی نہیں بلکہ ملک کے اعلیٰ ترین ادارے کے کسٹوڈین کی جانب سے اس الزام پر فیصلہ سنانے کے مترادف تھا۔ اپوزیشن اراکین کو اس حوالے سے نہ سننا ایک انتہائی غیر اخلاقی حرکت تھی۔ تاہم، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے یہ سپیکر یا اس کیس میں ڈپٹی سپیکر کی صوابدید ہے کہ وہ اپوزیشن ارکان کی رائے سننا چاہے یا نہ سننا چاہے۔ یعنی یہاں بھی حکومتی عیدیداروں کے ساتھ نرمی برتی گئی۔
تاہم، تیسرے معاملے پر بات بالکل صاف تھی اور یہاں تفصیلی فیصلے میں بھی کسی قسم کی کوئی گنجائش نکالنا ناممکن تھا۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے پاس تحریکِ عدم اعتماد پیش ہو جانے کے بعد اس قسم کا قطعاً اختیار موجود نہیں کہ وہ رائے شماری کے بغیر اسے کسی بھی بنا پر مسترد کر سکے۔ ایک بار یہ تحریک پیش کر دی جائے تو اس پر ووٹنگ کروانا ہی ہوگی۔ مگر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے فیصلے میں ان تمام غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو ایک منصوبے کا حصہ قرار دیا۔ ابہون نے لکھا کہ اس روز سپیکر غیر حاضر نہیں تھے، وہ ایوان میں موجود تھے تو پھر انہوں نے اجلاس کی کارروائی خود کیوں نہیں چلائی، وہ یہ بتانے سے قاصر رہے۔ لہذا میں بلا جھجک کہہ سکتا ہوں کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے آئینی احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی۔ ڈپٹی سپیکر کے پاس اس روز اجلاس کی کارروائی کی صدارت کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا اور نہ ہی وہ وزیر اعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ڈپٹی سپیکر کا محض یہ ایک اقدام ہی ان کی جانبداری ثابت کرنے کے لئے کافی ہے جو کہ میری نظر میں سپیکر کے عہدے کے شایانِ شان نہیں۔ ان کا یہی اقدام ان کے فیصلے کو مسترد کرنے کے لئے کافی ہے۔
اس کے بعد جسٹس مظہر عالم میاں خیل مزید سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آئین کے ابتدائی الفاظ میں اختیارات کا استعمال ‘ایک مقدس امانت’ قرار دیا گیا ہے اور یہ اختیار محض عوام کے منتخب نمائندے ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم، صدر، وزیرِ اعظم، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیرِ قانون نے اس مقدس امانت میں خیانت کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ڈپٹی سپیکر کے قرارداد کو مسترد کرنے سے لے کر صدر کے اسمبلی توڑنے تک تمام اقدامات معمول کی کارروائی نہیں تھے بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آئین کے ساتھ ایک فراڈ کرتے ہوئے تحریکِ عدم اعتماد کو شکست دینے کے لئے اٹھائے گئے تھے۔ میری نظر میں آئین کے آرٹیکل 5 کو آئین کی خلاف ورزی کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ تاہم، یہ تمام اقدامات آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ ارکان پارلیمان پر چھوڑا جانا چاہیے کہ آیا وہ ایسے غیر آئینی اقدامات کے لئے دروازہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں یا پھر ان کو مستقبل میں دہرائے جانے سے روکنے کے لئے اس حوالے سے کوئی ایکشن لیتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی اپنے اختلافی فیصلے میں اٹارنی جنرل کی اس درخواست کو آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ چونکہ اب صدر نے یہ فیصلہ کر دیا ہے لہٰذا اب آپ بھی اس پر عملدرآمد ہونے دیجیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تو اب صدر نے کیا حکم جاری کیا اور انہیں کیا سمری موصول ہوئی اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہتی۔ دوسرے یہ کہ اٹارنی جنرل کی یہ استدعا نظریۂ ضرورت کے تحت کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس ملک نے پہلے ہی نظریۂ ضرورت کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا ہے اور غیر آئینی قوتوں نے بار بار اسے استعمال کیا جب کہ یہی عدالت اس کو قانونی جواز فراہم کرتی رہی۔ لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ الٹا جمہوریت کو نقصان اٹھانا پڑا۔ عدالتوں کو ہر حال میں غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے۔ ملک میں ایسی کوئی غیر معمولی صورتحال نہیں تھی کہ جس سے ریاست کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا۔ انہون نے لکھا کہ ایک شخص کی خواہشات کے احترام میں ملک میں نئے انتخابات کی کوئی راہ نکالنا کسی پر لازم نہیں تھا۔ یہ فیصلہ پارلیمان کی مجموعی دانست پر ہی مبنی ہونا چاہیے، عدالت خود کو پارلیمان کے اختیارات تفویض نہیں کر سکتی۔