مولانا کے عمرانی یوٹرن کے بعد پی ٹی آئی والے آپس میں ہی لڑنے لگے

مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی رہی سہی ساکھ کا جنازہ نکالتے ہوئے پی ٹی آئی کے ساتھ ملکر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کیخلاف احتجاجی تحریک کو آگے بڑھانے کا عندیہ تو دے دیا ہے تاہم دوسری جانب جہاں ایک طرف جے یو آئی کے کارکنان تحریک انصاف کو قبول کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے وہیں دوسری جانب مولانا کے ساتھ ہاتھ ملانے پر پی ٹی آئی رہنماؤں میں بھی اختلاف کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کی سربراہی میں ہونے والے تحریک انصاف کے کور کمیٹی اجلاس کے دوران جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر تنقید کی وجہ سے بعض پی ٹی آئی رہنما ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے اور ایک دوسرے کے خلاف سخت جملوں کا تبادلہ کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کور کمیٹی اجلاس میں مخصوص نشستوں کے کیس کے دوران سپریم کورٹ میں جے یو آئی (ف) کے الیکشن کمیشن کے مؤقف کی تائید کرنے پر ایڈشنل سیکریٹری جنرل فردوس شمیم فردوس نقوی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سمیت چند دیگر صوبائی رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمن پر تنقید کی جس پر سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ذرائع نے مزید بتایا کہ دوران اجلاس اسد قیصر نے کہا کہ عمران خان کی ہدایت کے بعد دونوں پارٹیوں نے سیزفائر کر رکھا ہے لیکن چند لوگ مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کے درمیان اتحاد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاک بحریہ کافضاء میں مار کرنے والے میزائلز کاکامیاب تجربہ
اس موقع پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے مولانا فضل الرحمان پر تنقید کی تو سابق اسپیکر نے کہا کہ اپنے حلقے کی سیاست اور ذاتی مفاد کے باعث قومی اتحاد کو نقصان نہ پہنچایا جائے، پی ٹی آئی کو مولانا فضل الرحمان کے خلاف کسی قسم کا کوئی بیان جاری نہیں کرنا چاہیے۔علاوہ ازیں، کور کمیٹی اجلاس میں شاندانہ گلزار اور شیر افضل مروت کے خلاف بھی قرارداد پیش کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں شاندانہ گلزار اور شیر افضل مروت کی رکنیت 30 روز تک معطل کرنے کی سفارش کی گئی۔ تاہم بعض رہنماؤں کی مخالفت کے باعث مذکورہ پارٹی ارکان کی رکنیت معطل کرنے کا فیصلہ مؤخر کردیا گیا۔ تاہم اجلاس میں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف انضباطی کارروائی کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
خیال رہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور پی ٹی آئی ماضی میں سخت مخالف جماعتیں رہی ہیں اور دونوں جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی اور الزام تراشی بھی کرتی رہی ہے جہاں مولانا عمران خان کو عالمی فتنہ اور یہودی ایجنٹ قرار دیتے رہے ہیں وہیں عمران خان بھی بھرے جلسوں میں مولانا فضل الرحمٰن کو مولانا ڈیزل کہے کر اشتعال دلاتے رہے ہیں تاہم اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب ان دو جماعتوں کی بات چیت سے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے گا یا دونوں جماعتیں حکومت کیخلاف الگ الگ تحریک چلائیں گی؟تجزیہ کاروں کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن اس وقت وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں، سربراہ جے یو آئی کی حکمت عملی سے لگتا ہے وہ اس وقت صرف اور صرف پریشر بڑھانا چاہ رہے ہیں اور وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف احتجاجی تحریک میں کوئی بھی ایسی پوزیشن نہیں لینگے جو بعد میں انھی بھگتنی پڑے۔ مبصرین کے مطابق انتخابات سے پہلے تک تو جمعیت علمائے اسلام کی پوزیشن اچھی سمجھی جا رہی تھی لیکن انتخابات کے بعد نتائج توقعات کے برعکس آئے اور مولانا فضل الرحمان کو یہ صدمہ لاحق ہے کہ انتخابات میں ان کے ساتھ کیا ہوا اور اس کا ذمہ دار وہ اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق جے یوآئی کی طرف سے اس وقت طاقت کا مظاہرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مولانا واضح کرنا چاہتے ہیں کہ واقعی اسٹیبلشمنٹ نے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں اور اس کے لیے احتجاجی تحریک کا اعلان کیا، جس سے وہ اسٹیبلشمنٹ پر پریشر ڈالنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سیاسی جوڑ توڑ ہو، حکومتوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوں، یا سیاسی اتحاد کے قیام کے لیے کوششیں ہوں، مولانا فضل الرحمان اس میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔پاکستان میں 2018 کے انتخابات کے بعد جب پی ٹی آئی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو ان انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو مرکز اور خیبر پختونخوا میں زیادہ سیٹیں نہیں ملی تھیں جس پر مولانا فضل الرحمان نے احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور انھیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز سمیت دیگر جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی کیونکہ اس وقت پی پی پی اور پی ایم ایل کے قائدین کے خلاف قائم مقدمات کی عدالتوں میں سماعت کی باتیں ہو رہی تھیں۔مولانا فضل الرحمان نے اکتوبر 2019 کو پی ٹی آئی حکومت کے خلاف صوبہ سندہ کے شہر سکھر سے احتجاجی تحریک کے لیے لانگ مارچ شروع کیا تھا بعد ازاں اسلام آباد میں انھوں نے دھرنے دیے تھے لیکن ان کے اس احتجاج کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا اور پھر دھرنے کو لپیٹ دیا گیا تھا ۔ تاہم اب مولانا فضل الرحمان نے اب اپنی عوامی احتجاجی تحریک کا نشانہ اسٹیبلشمنٹ کو بنایا ہے اور ان کی تنقید بھی اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کی مولانا آخرکیا چاہتے ہیں اور اس تحریک سے انھیں کیا حاصل ہو گا یا ان کا مطالبہ کیا ہے تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق ابھی ابھی انتخابات ہوئے ہیں اور اب فوری طور پر احتجاجی تحریک سے کوئی نتائج حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔تاہم اگر حکومت کو کچھ وقت مل جائے اور وہ کچھ ڈیلیور نہ کر پائیں تو پھر اگر اپوزیشن کی جماعتیں تحریک شروع کرتی ہیں تو اس کے نتائج نکل سکتے ہیں اور حکومت یا اسٹیبلشمنٹ پر پریشر بھی بڑھ سکتا ہے۔