آئین شکنی کر کے عمران خان پاکستانی ٹرمپ بن گے
معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ اپنی شکست کو سامنے دیکھ کر غیر آئینی طور پر قومی اسمبلی توڑ دینے والے عمران خان پاکستانی ٹرمپ بن چکے ہیں۔
معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان نے حالیہ دنوں میں ملک کو ایک ایسے آئینی بحران میں مبتلا کر دیا ہے جس کی ہماری تاریخ میں کوئی بے مثال نہیں ملتی۔ 3 اپریل کو انہیں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا تھا اور اس معرکے میں موصوف کی شکست یقینی تھی، تاہم عمران خان نے دستوری عمل کا سامنا کرنے کی بجائے آئین کی بساط ہی الٹ دی اور تمام مہرے تلپٹ کرتے ہوئے خود ہی قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیا حالانکہ وہ اپنا یہ آئینی اختیار تحریک عدم اعتماد داخل ہونے کے بعد کھو چکے تھے۔
بقول حامد میر ان کے پیشرو 18 وزرائے اعظم اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں ناکام رہے، جن میں سے زیادہ تر کو فوج یا عدالتوں نے معزول کیا۔ اس کے برعکس پاکستان کا حالیہ بحران مکمل طور پر عمران خان کی اپنی تخلیق ہے۔ تاہم امید کی جا رہی ہے کہ عمران خان کی طرف سے آئینی طریقہ کار کو پامال کرنے کی کوشش کے باوجود ملک کے جمہوری ادارے غالب رہیں گے۔ سپریم کورٹ عمران کا پیدا کردہ بحران حل کرنے پر غور کر رہی ہے، اور ججوں کے پاس یہ ثابت کرنے بہترین موقع ہے کہ آئین کی حکمرانی اور اس کی بالادستی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ فوج یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ ایک طرف کھڑی ہے اور سیاست دانوں کو اپنے مسائل پارلیمنٹ اور عدالتوں کے ذریعے حل کرنے کا موقع دینے پر تیار ہے۔ اگر اس صورت حال سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوتا ہے تو یہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہو گا۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان بہت سے خطرناک موڑ اور گھاٹیاں پھلانگتا ہوا موجودہ مقام تک پہنچا ہے لیکن بنیادی نکتہ کافی واضح ہے۔ آصف زرداری اور نواز شریف جیسے اپوزیشن لیڈروں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ عمران خان پورے سیاسی نظام کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
یہ رہنما جان گئے تھے کہ ”پاکستانی ٹرمپ“ عمران خان اپنی معاشی بدانتظامی، سیاسی محاذ آرائی اور خارجہ پالیسی میں امریکہ کی بجائے تحکمانہ طاقتوں کی طرف جھکاؤ جیسی غلطیوں کے باوجود خود کو اقتدار میں رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے آزما رہے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال یہ کہ عین جس وقت روس یوکرین پر حملہ کر رہا تھا، عمران خان ماسکع پہنچ کر ولادیمیر پوتن کو گلے لگا رہے تھے۔ اگرچہ غالب امکان ہے کہ عمران خان نے کسی گہری نظریاتی وابستگی کی بجائے محض مغربی دنیا میں پاکستان کے پرانے اتحادیوں کو زچ کرنے کے لئے ایسا کیا تھا۔
حزب اختلاف کو یقین ہو گیا کہ عمران خان پارلیمانی نظام حکومت کی بجائے صدارتی نظام اختیار کرنے کے ایک عظیم منصوبے پر عمل پیرا تھے جو ملک کے بچے کچھے جمہوری اداروں کے لیے ایک سنگین دھچکا ہوتا۔ بہت سے لوگوں کے لیے ایسا کوئی قدم قبول کرنا دشوار ہوتا۔ پاکستانیوں کی اکثریت چین کو دوست ماننے کے لیے تیار ہو سکتی ہے لیکن وہ چینی طرز کا یک جماعتی نظام نہیں چاہتے۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے بالآخر ایک آئینی عمل کے ذریعے عمران خان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ انہیں اپنے ارادے میں عمران خان کے متعدد سابق اتحادیوں سے بھی مدد مل گئی جو وزیراعظم کے اقدامات سے نالاں تھے۔ جب مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا اعلان کیا گیا تو عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے انداز بیان کا سہارا لیا۔ انہوں نے زرداری کو کھلے عام دھمکی دی اور انہیں اپنی بندوق کا ”پہلا ہدف“ قرار دیا اور اپنے مخالفین پر غیر ملکی سازش میں حصہ لینے کا الزام لگاتے رہے۔ حیرت انگیز طور پر، ان کی اپنی پارٹی کے کئی ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی اتحادیوں نے ان پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔
اس کے بجائے، انہوں نے عمران پر کرپشن کا الزام لگاتے ہوئے بغاوت کر دی۔ دوسری جانب عمران نے بدعنوانی اور غربت پر قابو پانے میں ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لیے منظم طریقے سے مذہب اور مغرب مخالف جذبات کا استحصال شروع کیا۔ انہوں نے پرتشدد گروہوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے لیکن لبرل پارلیمنٹیرین کو قید کر دیا۔ ان کے وزرا نے حیران کن طور پر اپوزیشن لیڈروں کو مارنے کے لیے خودکش بمبار بننے کی خواہش کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایران نواز لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کی حمایت حاصل کر لی لیکن یورپی یونین کو دھمکی دے کر اپنی اقتصادی ٹیم کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔
لیکن حامد میر کہتے ہیں کہ کہ شاید سب سے زیادہ فیصلہ کن نکتہ یہ رہا کہ عمران خان نے فوج کی غیر جانبداری پر بھی حملہ کر دیا۔ یہ پاکستان جیسے ملک میں انتہائی خطرناک چال ہے جہاں فوج کو اب بھی بہت زیادہ اختیار حاصل ہے۔ عمران کی بڑی غلطی بعض سینئر افسران، خاص طور پر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو اپنی سیاسی سازشوں میں کھینچنا تھی۔
ہاد رہے لہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید عمران خان کے وفادار ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ عمران خان نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 2019 میں طاقتور انٹر سروسز انٹیلی جنس کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ جنرل فیض حمید نے اسی سال کے آخر میں سینیٹ میں عدم اعتماد کی کوشش کو ناکام بنانے میں عمران خان کی مدد کر کے ان کے احسان کا بدلہ چکا دیا۔ تاہم ایک مرحلے پر جنرل فیض حمید نے قابل قبول حدود پار کر لیں۔ سیاست میں ان کی کھلی مداخلت نے عوام کو آہستہ آہستہ بیزار کر دیا۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ فیض حمید کے بطور کور کمانڈر پشاور تبادلے کے بعد فوجی قیادت نے جلد ہی خود کو غیر سیاسی کرتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کی حکومت سے دور کر لیا۔ انکا کہنا ہے کہ اس کے باوجود حزب اختلاف کے سینئر رہنماؤں نے جنوری میں مجھے بتانا شروع کیا کہ انہیں خدشہ ہے کہ عمران خان جمرل فیض حمید کو اپریل 2022 میں نیا آرمی چیف مقرر کر سکتے ہیں جس سے اقتدار پر وزیر اعظم کی گرفت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔
حزب اختلاف کو خدشہ تھا کہ اگلے الیکشن میں عمران خان کے وفادار عناصر دھاندلی کریں گے۔ ایک طرف یہ معاملہ تھا، دوسری طرف حزب اختلاف نیز عمران خان کے کچھ سابق اتحادیوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی ان واقعات کے رونما ہونے میں اہم کردار ادا کیا جو موجودہ بحران کا باعث بنے اور عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے قومی اسمبلی ہی توڑ دی۔
لیکن عمران خان کی سیاست مستقبل قریب میں مکمل طور پر ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ اپنے سابق امریکی ہم منصب ٹرمپ کی طرح عمران کا سیاسی کیریئر بھی ابھی اختتام کو نہیں پہنچا۔ لہذا وہ بھی ٹرمپ کی طرح غلط معلومات پھیلانے کے لیے مذہب اور مغرب مخالف جذبات کو استعمال کرتے رہیں گے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے اگلا وزیر اعظم بننے کا قوی امکان موجود ہے۔
اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ، ڈبل سواری پر پابندی
شہباز شریف کو اپوزیشن جماعتوں میں وسیع حمایت حاصل ہے۔ حامد میر کے بقول شہباز نے مجھے بتایا کہ ان کا بنیادی کام حقیقی معنوں میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات کا نفاذ ہے۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک وسیع البنیاد اتحادی حکومت بنانا چاہتا ہے۔
اگر سپریم کورٹ سے قومی اسمبلی بحال ہو گئی اور اس کے بعد اپوزیشن جماعتیں متحد رہیں تو امید ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں عمران خان کو شکست دے کر ان کے خوفناک طرز حکمرانی سے پیدا ہونے والے بہت سے مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ لیکن اگر حزب اختلاف میں باہمی لڑائیاں شروع ہو گئیں تو عمران موقع سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔