پاکستانی سیاستدان اور جرنیل جمہوریت کا کیسے قتل کر رہے ہیں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ ماضی کے پاکستانی ڈکٹیٹرز نے فوجی وردی پہن کر جمہوریت کو قتل کیا لیکن آج کے پاکستان میں جمہوریت کو قتل کرنے کیلئے فوجی وردی کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب اس کام کیلئے سیاست دانوں کے ذریعے پارلیمینٹ کو استعمال کیا جاتا ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان میں فوج نے ہمیشہ وسیع تر ملکی مفاد کے نام پر جمہوریت کا قتل کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا، لیکن فوجی جرنیلوں کی ہوسِ اقتدار نے ملکی مفاد کو ہمیشہ نقصان پہنچایا۔ پھر جب فوجی ڈکٹیٹر کو گلی محلوں میں برا بھلا کہا جانے لگتا ہے تو اس کا رعب دبدبہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔اسی لئے جنرل یحییٰ خان نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو چٹکی بجاتے میں فارغ کر دیا۔
حامد میر کے مطابق اگر کسی پاکستانی سے پوچھا جائے کہ مارشل لاء کیا ہوتا ہے تو وہ فوراً بتائے گا کہ جب فوج اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہے تو اسے مارشل لاء کہتے ہیں۔ اگر کسی امریکی سے پوچھا جائے کہ مارشل لاء کیا ہوتا ہے تو وہ بتائے گا کہ جب خانہ جنگی یاامن و امان کی خراب صورتحال کے باعث کسی ریاست یا شہر کا انتظام مخصوص مدت کیلئے فوج کے سپرد کیا جائے تو اس عارضی بندوبست کو مارشل لاء کہتے ہیں۔
حامد میر یاد دلاتے ہیں کہ جناح کے پاکستان میں چار مرتبہ فوج اقتدار پر براہ راست قبضہ کر چکی ہے اور چار فوجی ڈکٹیٹرز مجموعی طور پر 33 برس تک ملک پر حکومت کر چکے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ میں اب تک 68 مرتبہ مارشل لاء نافذ کیا جا چکا ہے لیکن وہاں کی فوج منتخب حکومت کیخلاف بغاوت کر کے اقتدار پر قبضہ نہیں کرتی، بلکہ کسی ریاست کا گورنر یا امریکہ کا صدر ایمرجنسی میں فوج کو خرابی ختم کرنے کا حکم دیتا ہے اور فوج خرابی ختم کر کے واپس چلی جاتی ہے۔ مثلا~1862ء میں امریکی صدر ابراہم لنکن نے خانہ جنگی کے باعث مارشل لاء نافذ کیا جس کے دوران شخصی آزادیاں معطل ہو گئیں اور فوجی عدالتیں قائم کر دی گئیں۔ مارشل لاء کے نفاذ کے حکم نامے کو سینٹ اور کانگریس سے منظوری ملی اور یہ بندوبست چار سال تک قائم رہا۔
1941ء میں امریکی صدر روز ویلٹ نے پرل ہاربر پر جاپان کے حملے کے بعد ریاست ہوائی میں مارشل لاء نافذ کیا جو 2 سال اور دس ماہ کے بعد ختم کر دیا گیا۔ امریکہ میں 68 مرتبہ مارشل لاء کے نفاد کے باوجود مارشل لاء کا لفظ گالی نہیں بنا کیونکہ امریکی صدر یا کسی ریاست کا گورنر حالات سدھارنے کیلئے فوج کو بلاتا رہا اور فوج نے ایک مرتبہ بھی اقتدار پر قبضہ کر کے کسی منتخب صدر کو جیل میں نہیں ڈالا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان میں مارشل لاء کا پہلا تجربہ 1953 میں کیا گیا جب لاہور میں ختم نبوت کی تحریک کے دوران فسادات پھوٹ پڑے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے ان فسادات کو روکنے کیلئے لاہور میں مارشل لاء لگادیا اور فوجی عدالتیں قائم کر دیں۔ ان فوجی عدالتوں نے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور مولانا عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت سنا دی۔ یہ مارشل لاء صرف دو ماہ کے بعد ختم کر دیا گیا اور فوجی عدالتوں کی طرف سے دی جانے والی سخت سزائیں بھی منسوخ ہوگئیں لیکن فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے مارشل لاء لگانے کا موقع تلاش کرنا شروع کردیا۔ 1958ء میں انہوں نے گورنر جنرل اسکندر مرزا کے ساتھ مل کر مارشل لاء لگایا اور کچھ دنوں کے بعد اپنے اس سہولت کار کو گرفتار کر کے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا۔
جنرل ایوب خان نے گیارہ سال حکومت کی اور خود کو فیلڈ مارشل بھی ڈیکلیئر کر دیا۔ انہوں نے اپنے ایک من پسند فوجی افسر جنرل یحییٰ خان کو آرمی چیف بنایا اور خود صرف ملک چلانے پر توجہ دینے لگے۔ جنرل یحییٰ خان نے اختیارات ملتے ہی اپنے باس ایوب خان کے ساتھ وہی کچھ کیا جو ایوب خان نے اسکندر مرزا کے ساتھ کیا تھا۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے تیسرا مارشل لاء لگایا اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ سے پھانسی دلوا دی جسے سال 2094 میں سپریم کورٹ نے ہی جوڈیشل مرڈر قرار دیا۔ جنرل ضیاء اور اس کی حکومت کا خاتمہ ایک ہوائی حادثے کے نتیجے میں ہوا۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹا کر جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنایا تو فوجی جرنیلوں نے بغاوت کر دی اور نواز شریف کو وزیر اعظم ہائوس میں گھس کر گرفتار کر لیا۔ نواز شریف پر آرمی چیف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا گیا لیکن کچھ عرصے بعد انہیں سعودی شاہی خاندان کی مداخلت پر جیل سے نکال کر سعودیہ بھجوا دیا گیا۔ اس کے بعد جنرل مشرف نے 9 برس تک حکومت کی، لیکن جب موصوف کو گلی محلوں میں گالیوں کا سامنا کرنا پڑا تو فوج نے انہیں گارڈ آف آنر دلوا کر ایوان صدر سے رخصت کر دیا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں فوجی جوانوں اور افسران کیلئے وردی پہن کر عام پاکستانیوں میں جانا مشکل ہو گیا تھا۔ سیاسی جماعتوں نے مارشل لاء کا راستہ روکنے کیلئے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے عدالتوں سے مارشل لاء کی تائید کا اختیار چھین کر دریائے سندھ میں بہا دیا۔ سپریم کورٹ نے جنرل مشرف پر بغاوت کا مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔ جنرل راحیل شریف نے بہت کوشش کی کہ یہ کیس نہ چلے لیکن مقدمہ بھی چلا اور اسے سزا بھی سنا دی گئی۔ تاہم اگلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئین شکن مشرف کو سنائی جانے والی سزا پر عملدرآمد نہ ہونے دیا۔ لیکن مشرف کو سزا سنانے والے جج جسٹس وقار سیٹھ عوام کے ہیرو بن گئے۔
سینئیر صحافی کے بقول پاکستان میں مارشل لاء نافذ کرنے والے ہر جرنیل کا انجام برا ہوا لہٰذا باجوہ دور میں ایک نئی ڈاکٹرائن ایجاد کی گئی۔ باجوہ ڈاکٹرائن یہ تھی کہ مارشل لاء لگائے بغیر پس پردہ رہ کر فوج ملک کو چلائے۔ فوج نے 2018ء کے الیکشن نتائج بدل کر عمران خان کو وزیر اعظم تو بنا دیا اور ملک میں ہائبرڈ سسٹم نافذ کر دیا جس میں وزیراعظم ایک پتلا تھا۔ اس کے بعد عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کو سلب کر لیا گیا۔ عمران دور میں پارلیمینٹ میں قانون سازی بھی جنرل فیض حمید کے نامزد فوجی افسران کی نگرانی میں ہوتی تھی اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے نت نئے قوانین کے مسودے بھی فیض حمید کی طرف سے کابینہ کو بھجوائے جاتے تھے۔
حامد میر کے بقول پھر وہ وقت آیا جب فوج کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار حاصل کرنے والے عمران خان نے باجوہ ڈاکٹرائن سے جان چھڑانے کیلئے جنرل فیض حمید کا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے اور اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یوں وہ پہلے وزیراعظم بنے جنہیں ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمی سے الگ ہونا پڑا۔ اب وہ جیل میں بیٹھ کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حکومت اس کوشش کو ناکام بنانے کیلئے باجوہ ڈاکٹرائن سے استفادہ کر رہی ہے۔ یاد ریے کہ جنرل باجوہ کے دور میں سیاسی اجتماعات اور مظاہروں پر پابندی لگانے کیلئے ایک قانون کا مسودہ بنایا گیا لیکن یہ قانون اسمبلی میں نہ لایا جا سکا۔ پیکا ایکٹ میں ترمیم کر کے صدارتی آرڈیننس لایا گیا لیکن یہ آرڈیننس اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔ شہباز شریف حکومت نے سیاسی اجتماعات پرپابندی کے قانون کو پبلک آرڈر 2024ء کے نام سے پارلیمینٹ سے منظور کرا لیا۔ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کو بھی منظور کرا لیا گیا فوجی عدالتیں پہلے سے موجود ہیں اب پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت خصوصی عدالتیں بھی بنیں گی اور حکومت کے ناقدین کو ان عدالتوں سے سزائیں ملیں گی۔
پی ٹی آئی کی دوبارہ احتجاج کی دھمکی موثر ثابت کیوں نہیں ہوگی؟
حامد میر کے بقول مارشل لاء کا اعلان کئے بغیر مارشل لاء لگانے کی جس ڈاکٹرائن پر جنرل باجوہ عمل کر رہے تھے اسے شہباز شریف کی حکومت نے چرا لیا ہے۔ اب ہم حکومت کی اجازت کے بغیر اسلام آباد میں سنگجانی کے سوا کسی اور جگہ سیاسی اجتماع نہیں کر سکتے اور سوشل میڈیا پر تنقید کریں گے تو فیک نیوز پھیلانے کے الزام میں خصوصی عدالتوں میں مقدمات چلیں گے۔ یہ مارشل لاء نہیں تو کیا ہے؟ شہباز شریف حکومت اپنے اقدامات سے بہت جلد ہمیں یہ کہنے پر مجبور کر دیگی کہ انکی حکومت جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومتوں سے بہت آگے کی چیز ہے۔ ماضی کے ڈکٹیٹروں نے فوجی وردی پہن کر جمہوریت کو قتل کیا لیکن آج کے پاکستان میں جمہوریت کو قتل کرنے کیلئے فوجی وردی پہننے کی ضرورت نہیں رہی اس کام کیلئے اب سیاست دانوں کے ذریعے پارلیمینٹ کو استعمال کیا جاتا ہے۔