10پاکستانی صحافیوں نے اسرائیل کا خفیہ دورہ  کیسے کرڈالا؟

فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے دوران سوشل میڈیا پر ایک بار پھر پاکستانی صحافیوں اورمحققین پر مشتمل 10 رکنی وفد کے دورہ اسرائیل بارے خبریں زیر گردش ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جہاں ایک طرف پاکستانی وفد کے اسرائیل کے دورے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جب پاکستانی پاسپورٹ پر واضح الفاظ میں درج ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے لئے قابل عمل نہیں پھر پاکستانی صحافی اسرائیل کیسے پہنچ گئے؟

خیال رہے کہ اسرائیل کے ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان صحافیوں، دستاویزی فلم سازوں اور محققین پر مشتمل وفد نے حال ہی میں اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا۔انڈیپینڈنٹ اردو کی رپورٹ میں اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے بتایا گیا کہ گزشتہ ہفتے پاکستانیوں کے ایک وفد کو تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کرایا گیا۔

رپورٹ میں اخبار اسرائيل ہيوم کے حوالے سے بتایا گیا کہ دورے کا انتظام اسرائیلی غیر سرکاری تنظیم شراکہ نے کیا تھا، جو صیہونی ریاست کے ایشیائی و مشرقی وسطی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے کام کرتی ہے۔وفد نے جن دو جگہوں اور مقامات کا دورہ کیا، ان میں عحائب گھر، مسجد االاقصیٰ اور دیگر علاقے شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق تاحال اسرائیل کا دورہ کرنے والے 10رکنی وفد میں شامل افراد کی مکمل تفصیلات تو سامنے نہیں ا سکیں تاہم اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا کہ ایک صحافی قیصر عباس نے تصویر شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ ذاتی حیثیت میں اسرائیل کا دورہ کر رہے ہیں اور انہیں ایسا نہیں لگتا کہ اس سے پاکستان کے عوام کا غصہ بڑھے گا۔ایک سوال کے جواب میں قیصر عباس کا مزید کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل ممکن ہے، لیکن یہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی مشترکہ کوششوں سے ہی ہوسکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفد میں شامل ایک اور رکن شبیر خان نے بتایا کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان مستقبل میں تعلقات کو معمول پر لایا جاسکتا ہے، تاہم اس میں ’انتہا پسند اسلامی گروپوں‘ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔’ان کا خیال ہے کہ یہ عمل 10 سے 20 سال کے اندر مکمل ہو سکتا ہے۔

وفد کی رکن پاکستانی دستاویزی فلم ساز سبین آغا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’میں ہمیشہ اسرائیل آنا چاہتی تھی تاکہ میرے ذہن میں موجود تمام سوالات کے جوابات تلاش کروں اور اس الجھن کو دور کروں جو میرا ملک اور مسلم دنیا مجھے یہودیوں کے بارے میں بتاتے رہی ہیں۔‘

دوسری جانب پاکستانی وفد کے دورہ اسرائیل کے حوالے سے شراکہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’ہم پاکستانی وفد کو اسرائیل میں خوش آمدید کہنے کے لیے پُرجوش ہیں، یہ اقدام ہمارے وسیع تر ایجنڈے میں معاون ثابت ہوگا، جس کا مقصد اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان امن کو فروغ دینا ہے۔‘

پاکستانی وفد کے دورہ اسرائیل کے حوالے سے تاحال نہ تو وفد کی جانب سے کوئی باقاعدہ بیان جاری کیا گیا ہے اور نہ ہی فارن آفس کی جانب سے اس حوالے سے کوئی وضاحت سامنے آئی ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ کے حامل پاکستانی صحافی اسرائیل کے دورے پر کیسے گئے۔ پاکستانی صحافیوں اورمحققین کے وفد لے دورہ اسرائیل کا معاملہ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے جہاں ایک طرف وفد کے شرکاء کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے وہیں اس بارے میں بھی سوال کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر یہ ہدایات واضح طور پر درج ہیں کہ اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ نہیں کیا جا سکتا تو پھر پاکستانی شہری اسرائیل کیسے پہنچے۔

مبصرین کے مطابق پاکستان میں اسرائیل کے خلاف پائی جانی والی رائے کے ہوتے ہوئے ہر حکومت کو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے جیسے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اور اگر کوئی حکومت اس حوالے سے کوئی نرمی برتیں ہے  تو اسےسخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ماضی میں پاکستانی حکام پر خفیہ طور پر اسرائیل سے روابط کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے پہلے پاکستان میں اسرائیل سے متعلق تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی تجاویز سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سامنے آئیں تو عوام نے سابق صدر پر بھی اسرائیل سے دوستی کرنے جیسے الزامات عائد کیے۔سابق سفیر آصف درانی کے مطابق اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا براہ راست کوئی تنازعہ نہیں اور نہ اسرائیل کبھی پاکستان کے خلاف براہ راست بیانات دیتا ہے۔ ان کے مطابق کسی بھی ملک سے اچھے تعلقات کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔سابق سفیر کے مطابق پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق اور مخالفت میں اپنے دلائل موجود ہیں جس وجہ سے یہ بحث کبھی بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔

تاہم پاکستانی صحافیوں کے وفد کے اسرائیل کے دورے کے بعد یہ سوال زوروشور سے اٹھایا جا رہا ہے کیا پاکستانی شہری پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ کر سکتے ہیں؟پاکستان کے پاسپورٹ پر یہ ہدایات واضح طور پر درج ہیں کہ اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع کے مطابق بہت سے پاکستانی ملکی پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ کرتے رہتے ہیں تاہم  اسرائیل کا دورہ کرنے والے پاکستانی مسافروں کے پاسپورٹس پر انٹری اور ایگزٹ کی مہر ثبت نہیں کی جاتی باقی اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے بقول اسرائیل میں ہزاروں پاکستان آ چکے ہیں اور یہاں ان کی بڑی تعداد پاکستانی پاسپورٹ پر ملازمت بھی کر رہی ہے۔ان کے مطابق پاکستانیوں کا اسرائیل کا دورہ کرنا کوئی جرم نہیں کیونکہ کبھی بھی پاکستان نے ماضی میں کسی کو اس بنیاد پر سزا نہیں سنائی۔

Back to top button