کیا اپنی دھمکی کے مطابق ایم کیو ایم حکومتی اتحادکوچھوڑ سکتی ہے؟

ایم کیو ایم پاکستان نے ایک بار پھر وفاقی حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دیتے ہوئے مشاورت کے لیے رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے چیئر مین ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم نے غیر سنجیدہ رویہ کی وجہ سے پچھلی حکومت کو بھی چھوڑ دیا تھا، اب بھی حکومت ہمیں سنجیدہ نہیں لے رہی۔ اس لئے اب ہم حکومت چھوڑنے بارے دھمکی نہیں دے رہے کیونکہ اب حکومت کا مزید ساتھ دینے یا نہ دینے بارے حتمی فیصلے کا وقت آگیا ہے اور ایم کیو ایم جلدحکومتی اتحاد میں شامل رہنے یا نکلنے بارے فیصلہ کرنے والی ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم کی حکومتی اتحاد سے نکلنے کی دھمکی خالی گیڈر بھبکی ہے کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ بنیادی طور پر ایک ریمورٹ کنٹرولڈ پارٹی بن چکی ہے۔ جن طاقتوں کے پاس اس وقت ایم کیو ایم کا کنٹرول ہے وہ اس وقت کسی بھی صورت میں شہباز حکومت کو غیر مستحکم نہیں ہونے دینگے اس لئے بھڑکوں اور بلندو بانگ دعووں کے باوجود ایم کیو ایم کا حکومتی اتحاد سے نکنا نا ممکن ہے۔
تاہم دوسری جانب شہباز کابینہ کا حصہ ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کی جانب سے حکومت کو چارج شیٹ کرنے کا سلسلہ جاتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنما امین الحق کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے ایم کیو ایم کے ساتھ کراچی اور حیدرآباد کیلئے پیکج کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم ترقیاتی پیکج پر کہیں کام ہوتا نظر نہیں آرہا، ڈیڑھ سال سے حکومت نے ایم کیو ایم پاکستان سے کیا ہوا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا، کراچی اور حیدرآباد پیکیج سمیت دیگر معاملات پر تحفظات ہیں۔ حکومت کی جانب سے مسلسل وعدہ خلافیوں پر ایم کیو ایم کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس طلب کیاجا چکا ہے تاکہ فیصلہ کریں کہ حکومتی اتحاد کو چھوڑ کر آزاد حیثیت میں رہیں یا اپوزیشن بینچز پر بیٹھیں۔انہوں نے کہا کہ 6 دن سے وزیر اعظم شہباز شریف سے رابط کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کوئی بات نہیں سنی جا رہی ہے لہٰذا ایم کیو ایم اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے آزاد ہے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں وفاقی کابینہ میں توسیع کردی ہے، جس میں ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنما مصطفیٰ کمال کو بھی شامل کرلیا گیا ہے اور وفاقی وزارت صحت کا قلم دان سونپ دیا گیا ہے جبکہ پہلے بھی ایم کیو ایم شہباز کابینہ کا حصہ ہے۔
تاہم مبصرین کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی نا ممکن ہے کیونکہ ایم کیو ایم ہمیشہ سے ہی چڑھتے سورج کی پجاری رہی ہے اور گذشتہ 37 سالوں سے تقریباً ہروفاقی حکومت کا حصہ رہی ہے۔تحریک انصاف کے علاوہ ایم کیو ایم کو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں سے ہی شراکت داری کا تجربہ رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جنرل ضیا الحق کی طیارے کے حادثے میں ہلاکت کے بعد 1988 کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور اسلامی جمہوری اتحاد عرف آئی جی آئی دونوں کے لیے ایم کیو ایم اتنی ہی اہم تھی جتنی موجودہ دنوں میں ہے۔
مبصرین کے مطابق حکومتی اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود ایم۔کیو ایم کوئی بھی خاطر خواہ کامیابی سمیٹنے میں ناکام رہی ہے۔حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کی دھمکیاں دے کر ایم کیو ایم اپنی بقا کی جنگ میں مصروف دکھائی دیتی ہے، جس میں اسے اب تک کامیابی نہیں مل پائی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیو ایم کو اپنے ووٹرز کو حکومتی اتحاد کی جانب راغب کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایم کیو ایم کے اندر اب بھی حکومتی اتحاد کی قبولیت فی الحال کم ہی نظر آتی ہے۔ مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی یا نون لیگ سے اتحاد کی بجائے آزاد حیثیت میں ہی رہتی تو اس وقت بہتر پوزیشن میں ہوتی۔ تاہم اب حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے بعد ایم کیو ایم کا پیچھے ہٹنا نا ممکن ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو کبھی ایسا پنگا لینے کی اجازت نہیں دے گی
معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق ایک زمانے میں عوام کی طاقت سے کراچی پر چھا جانے والی ایم کیو ایم اب سیاسی روبوٹس پر مبنی ایک کٹھ پتلی جماعت بن چکی ہے جسے فوجی اسٹیبلشمنٹ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اپنی مرضی سے چلاتی ہے۔ ایک وقت تھا جب سیاست کا مرکز عزیز آباد ہوتا تھا۔ کیا صدر، کیا وزیر اعظم، کیا پی پی پی اور کیا مسلم لیگ (ن) حکومت بنانی ہو یا توڑنی ہو ’’حاضری‘‘ ضروری تھی۔ لیکن اج پوری کی پوری ایم کی ایم ایک ریموٹ سے کنٹرول ہو رہی ہے۔ اس لئے ایم کیو ایم کا خود سے کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔مظہر عباس کے مطابق کبھی ’’روبوٹس” پر مبنی ایم کیو ایم اپنے وقت کی سب سے زیادہ منظم اور شہری سندھ کی نمائندہ جماعت تھی مگر بدقسمتی سے ایم کیو ایم 22 اگست 2016 کے بعد سے مکمل طور پر ریموٹ سے کنٹرول ہو رہی ہے۔ اب سب فیصلے ریموٹ کنٹرول سے ہوتے ہیں اور یہی ہماری سیاست کی بدقسمتی ہے۔