سب کی ماں مریم نواز نے بڑبولے چاچے کو نانی کیسے یاد دلائی؟

“پنجاب کی ماں” کہلانے والی وزیراعلیٰ مریم نواز نے ثابت کر دیا کہ جب ماں ناراض ہو جائے تو اولاد کو تھانے پہنچنے میں بھی دیر نہیں لگتی۔ اس بات کی عملی صورت اس وقت دیکھنے میں آئی جب چچا لاہوری کے نام سے موسوم ایک بزرگ شہری ساجد نے بارش میں سڑک پر پھنسی بائیک کے ساتھ مریم نواز کیخلاف غصے میں دو بول بول دئیے۔ جس کی ویڈیو جیسے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی پوری ریاستی مشینری حرکت میں آ گئی۔ بغیر ایف آئی آر کے نہ صرف فوری گرفتاری عمل میں آ گئی بلکہ دو دن حبس بے جا میں رکھنے اور پولیس حراست میں سافٹ وئیر اپ ڈیٹ پر مبنی ویڈیو وائرل کرنے کے بعد عدالتی مداخلت پر چچالاہوری کو رہائی ملی۔
ناقدین کے مطابق جس نظام میں عوامی غصہ بغاوت بن جائے اور حکمرانوں کی انا آئین سے بڑی ہو جائے، وہاں ماں بننے کے دعوے، صرف سیاسی سلوگن رہ جاتے ہیں۔ مریم نواز اگر واقعی پنجاب کی ماں ہیں، تو سوال تو بنتا ہے کہ ماں تنقید پر ظرف دکھاتی ہےیا پولیس کے ہاتھوں چھترول کرواتی ہے؟ لاہور میں حالیہ بارش کے دوران ایک غصے سے بھرے بزرگ شہری نے سڑک پر کھڑے پانی بارے شکوہ کیا، تاہم یہ شکوہ اس قدر بھاری پڑا کہ اس شخص کو محض تنقید پر “شرپسند” اور “ناشکرا” ہی نہیں”غدار” بھی قرار دے دیا گیا۔ ناقدین کے مطابق لاہور کے ساجد نواز، جنہیں اب سوشل میڈیا پر طنزیہ طور پر “چاچا لاہوری” کہا جا رہا ہے، کا قصہ صرف ایک فرد کی زبان بندی نہیں بلکہ ایک پورے نظام کی فکری بانجھ پن اور ریاستی عدم برداشت کا آئینہ ہے۔
خیال رہے کہ یہ وہی ساجد ہیں جن کی ویڈیو بارش کے دن سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ وہ موٹرسائیکل پر سوار تھے، پانی میں پھنس چکے تھے، جیسے ہی انھوں نے کمیرے کو دیکھا غصے میں حکومتی نااہلی پر برس پڑے۔ انہوں نے نہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو ہدف تنقید بنایا بلکہ آرمی چیف کے خلاف بھی نازیبا زبان استعمال کی۔ جس پر پولیس نے فوری ساجد چچا پر تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 153، 505، 501، 500، 189 اور 506 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ حالانکہ ان دفعات کا تعلق قومی سلامتی، عوامی اشتعال انگیزی اور افواہیں پھیلانے جیسے سنگین جرائم سے ہے۔ پولیس کی جانب سے یہ الزام اس شہری پر لگایا گیا جس کی بائیک بند ہوئی، کپڑے بھیگے اور زبان پھسل گئی۔ کیا یہ واقعی “ریاست مخالف سرگرمی” تھی یا پھر طاقت کے نشے میں چور نظام کا فوری ردعمل؟ چچا لاہوری پر یقینا تنقید کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے نازیبا زبان کیوں استعمال کی مگر یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کے اظہار پر پنجاب پولیس کی جانب سے دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ، جبری حراست اور زبردستی معافی کی ویڈیو کا جواز بنتا ہے؟
پولیس کی جانب سے گرفتاری کے بعد چچا لاہوری کے بیٹے عمر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کے والد کو دو دن سے بغیر کسی قانونی حکم کے حراست میں رکھا گیا ہے، اور عدالت میں پیش کیے بغیر زبردستی معافی کی ویڈیوز بنوائی جا رہی ہیں۔ جس پر عدالت نے پولیس کو فوری طور پر ساجد چچا کو پیش کرنے کا حکم دیا، ہتھکڑیاں کھلوائیں اور بالآخر انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا۔ مگر اس سے پہلے جو کچھ ہوا، وہ شرمناک اور خوفناک تھا۔ پولیس کی تحویل میں ایک “نئی” ویڈیو جاری کی گئی جس میں ساجد صاحب نے جھک کر، دبی دبی آواز میں کہا:
“حکومت پاکستان سے معذرت… سی ایم صاحبہ زندہ باد… پاک فوج زندہ باد… پاکستان زندہ باد۔”
مزے کی بات یہ ہے کہ خود مسلم لیگ (ن) کی رہنما حنا پرویز بٹ نے معافی کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے طنزیہ لکھا:
“یہ وہی ہے نا جو کل بکواس کر رہا تھا؟ کہاں گیا اس کا ولولہ کہا گیا وہ جوش؟ جس کا یہ شخص کل اظہار کر رہا تھا”
پاکستانی ائیر لائینز پر 5 سالہ پابندی سے 250 ارب روپے کا نقصان
ناقدین کے مطابق حنا پرویز بٹ کا یہ لہجہ واضح کرتا ہے کہ پولیس کی جانب سے بزرگ شہری سے معافی منگوانے کا مقصد صرف انصاف نہیں بلکہ تذلیل تھی اور عوام کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ جو بھی حکومت کیخلاف بولے گا، اس کا سافٹ وئیر فوری “اپ ڈیٹ” کر دیا جائے گا۔
بزرگ شہری ساجد کی گرفتاری اور رہائی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ردعمل بہت شدید تھا۔ “چاچا لاہوری” سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنے، جہاں ایک طرف طنز و مزاح کے تیر چلے، وہیں دوسری جانب سنجیدہ آوازیں بھی بلند ہوئیں۔ مبصرین نے آزادیِ اظہار کے گرتے ہوئے معیار پر سوالات اٹھائے۔ بہت سے صارفین نے کہا کہ اگر ایک عام شہری کے غصے پر اتنا سخت ردعمل ہے، تو پھر حکمرانوں پر تنقید کس دائرۂ کار میں آتی ہے؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھائے گئے کہ کیا مریم نواز بطور وزیراعلیٰ اتنی کمزور ہیں کہ ایک ناراض شہری کی گالیوں سے ان کا اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے؟ کیا پولیس کا کام عوام کو تحفظ دینا ہے یا حکمرانوں کی انا کا دفاع کرتے ہوئے عوام کی دھلائی کرنا؟ ناقدین کے مطابق یہ واقعہ جمہوری روایات، انسانی وقار اور آئینی آزادیوں کی کھلم کھلا پامالی ہے۔ تنقید کے جواب میں مقدمہ، گرفتاری، زبردستی معافی — یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کو ابھی بھی جمہوریت ہضم نہیں ہوئی۔ اگر ساجد جیسے لوگوں کی آواز دبائی جاتی رہی، تو وہ دن دور نہیں جب صرف چاپلوسوں کی گونج باقی رہ جائے گی اور سچ بولنے والا ہر شخص، “سافٹ ویئر اپڈیٹ” ہونے سے پہلے خود کو خاموش کرنے میں ہی عافیت سمجھے گا۔
