جی ایچ کیو نے شہباز کو وزیر اعظم اور عمران کو قیدی کیسے بنایا؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار روف کلاسرا نے کہا ہے کہ شہباز شریف ہوں یا عمران خان‘ دونوں نے یہ راز پا لیا کہ اقتدار کا راستہ جی ایچ کیو سے ہی ہو کر جاتا ہے۔ شہباز شریف سیانے نکلے۔ انہوں نے نواز شریف اور عمران خان کے اقتدار سے نکالے جانے سے ایک ہی سبق سیکھا کہ بس نوکری کرو‘ اور ہیرو ازم نواز شریف اور عمران خان کیلئے چھوڑ دو۔ لہازا اگر شہباز کی حکمرانی کو دیکھیں تو ان سے بہتر نوکری آج تک کسی نے نہیں کی۔ فوج سے لڑنے جھگڑنے کا بوجھ اپنے بھائی اور خان کے کندھوں پر ڈال کو وہ خود مزے سے دہی کھا رہے ہیں۔ ویسے بھی اس ماحول میں میٹھی دہی کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔
اپنی تازہ تحریر میں سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ میں 1998ء سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوں۔ اس دوران کئی حکومتیں بنتی ٹوٹتی دیکھی ہیں۔ اس دوران عمران خان واحد وزیراعظم تھے جنہوں نے حلف لیتے ہی ایک شاہی حکم نامہ جاری کیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انہوں نے جارج بش کے تاریخی قول کو دہرا دیا ہو کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن‘ آپ نیوٹرل نہیں رہ سکتے۔ یہی کچھ خان صاحب نے کیا اور جو اُن کے ساتھ مل گیا وہ فرشتہ ثابت ہوگیا‘ اور دھل گیا‘ چاہے وہ کرپٹ تھا‘ فوجی تھا یا پھر صحافی اور یوٹیوبر۔
رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں عمران کو بڑا ایڈوانٹیج تھا کہ پیپلز پارٹی نے بھٹو دور سے لے کر 2013ء تک چار دفعہ حکومت کر لی تھی۔ نواز شریف بھی تین مرتبہ وزیراعظم بن چکے تھے۔ لہٰذا لوگوں کو ان کے اچھے برے پہلوؤں کا علم تھا جبکہ عمران خان وہ سیاسی گھوڑا تھا جس نے ابھی ڈربی ریس نہیں دوڑی تھی لہٰذا وہ اکیلا کھڑا ہو کر کچھ بھی کہہ سکتا تھا۔ لیکن موصوف نے بھی ضرورت سے زیادہ کہہ دیا اور عوام کی توقعات کا لیول بہت زیادہ بڑھا دیا، یہ سوچے بغیر کہ وہ انکی توقعات پوری کر بھی سکیں گے یا نہیں۔ خیر عمران خان کو اکیلے الزام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہی کام شریف خاندان بھی کرتا آیا ہے‘ خصوصا جب شہباز شریف نے آصف زرداری کے پاکستان سے لوٹے ہوئے ڈالرز واپس لانے کا اعلان کیا تھا۔
لیکن شہباز کے اس اعلان کا انجام یہ ہوا کہ اصف زرداری نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا دیا اور بلاول بھٹو ان کے وزیر خارجہ بن گئے۔ میجر (ر) عامر اکثر کہتے ہیں کہ نواز شریف نے وزیراعظم بن کر بڑی محنت سے اپنی کرسی عمران کو پیش کی کہ آپ نے سڑکوں پر بہت رُل لیا‘ اب میری جگہ وزارت عظمی سنبھالیں۔ ان کا مطلب تھا کہ نواز شریف نے ایسی غلطیاں کیں جو عمران کے کام آئیں۔ عمران کو موقع ملا تو وہ جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید کے قریب ہو گئے۔ تاہم سچ یہ ہے کہ ان تینوں کے اپس میں باہمی مفادات تھے۔ جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع چاہیئے تھی تو جنرل فیض کو سال 2022 میں آرمی چیف کا عہدہ چاہیے تھا جبکہ عمران خان نے ہر قیمت پر وزیراعظم بننا تھا۔ لہٰذا تینوں کے مفادات جڑ گئے مگر جتنی محنت نواز شریف نے عمران کو وزیراعظم بنوانے پر کی تھی‘ اتنی ہی عمران نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوانے پر کی۔
رووف کلاسرا کا کہنا ہے شہباز شریف ہوں یا عمران خان‘ دونوں نے یہ راز پا لیا کہ اقتدار کا راستہ جی ایچ کیو سے ہی ہو کر جاتا ہے۔ شہباز شریف بہرحال سیانے نکلے۔ انہوں نے نواز شریف اور عمران خان کے اقتدار سے باہر نکلنے پر ایک ہی سبق سیکھا ہے کہ بس نوکری کرو‘ ہیرو ازم نواز شریف اور عمران خان کیلئے چھوڑ دو۔ چنانچہ آج شہباز شریف سکون کے ساتھ میٹھا دہی کھا رہے ہیں، نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کا خواب ٹوٹنے کے بعد اب فارغ ہیں جبکہ عمران خان جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔
