نوازشریف نے پلاننگ سے اپنے بھائی کی حکومت کیسے بچائی؟

کئی مشہور کتابوں کے مصنف اور لکھاری محمد حنیف نے کہا ہے کہ نواز شریف کی جماعت کا عدلیہ کے ساتھ حالیہ جنگ کا ایک ہی مقصد تھا کہ ججز اُن کے بھائی شہباز شریف کے ساتھ وہ سلوک نہ کر سکیں جو ان کے ساتھ کرتے ہوئے اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

نوازشریف تاریخ کے خوش قسمت سیاستدان قرار

 حنیف کے مطابق نواز شریف شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے خوش قسمت سیاستدان ہیں لیکن وہ یہ خوش قسمتی عوام کے ساتھ بانٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ عوام کے ساتھ وہ صرف اپنا غم بانٹنا چاہتے ہیں اور اُداس دُھنوں میں اپنے مرنے اور جینے کا گیت گانا چاہتے ہیں۔ حنیف کہتے ہیں کہ انہیں نواز شریف کا غم اُس بزرگ کا غم لگتا ہے جو چار شادیاں کرنے اور چودہ بچے پیدا کرنے کے بعد بعد پوتے پوتیوں سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ مُجھے سچا پیار نہیں ملا۔

نوازشریف نے دکھ کا اظہار اپنے اشعار میں کیا،لکھاری

بی بی سی کے لیے اپنی تازہ تحریر میں محمد حنیف کہتے ہیں کہ بہت عرصے کے بعد نواز شریف پارلیمنٹ میں بولے۔ انہوں نے اپنے دل کا غم اشعار میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ نے انہیں اتنے دُکھ دیے ہیں کہ انکا شمار بھی ممکن نہیں۔ اس روز 26ویں آئینی ترمیم پاس ہو رہی تھی۔ عدلیہ کے یا تو پر کاٹے جا رہے تھے یا اُسے آئین کے دائرے میں لایا جا رہا تھا لیکن یہ حکومت اور اُس کے اتحادیوں کی جیت کا دن تھا۔ مہینوں کی تگ و دو کے بعد، مذاکرات کے ذریعے یا دھمکیوں کے راستے یا کچھ دو، کچھ لو کی پالیسی اختیار کر کے حکومت نے اپنے اعداد پورے کر لیے تھے۔ حکومت کے لیے خوشی کا دن تھا، ایسے میں سوال یہ یے کہ اس روز حکومت کے روحانی باپ نواز شریف اپنے ماضی کے زخم کیوں کُرید رہے تھے۔

ناکام عشق کا سفرنوازشریف نے عوام کے سامنے طے کیا

حنیف کے بقول تین بار مُلک کے وزیر اعظم سے ناکام عاشق کا سفر نواز شریف نے عوام کی آنکھوں کے سامنے طے کیا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ نے پہکے انہیں بنایا پھر نکالا، پھر انہیں عوام نے بنایا اور مشرف نے نکالا، اسکے بعد انہیں عوام نے پھر سے بنایا اور عدلیہ نے نکال دیا، ایسے میں ظاہر ہے کہ عدلیہ کو زہر دینے اور پھر جینے مرنے کے طعنے دینے بنتے ہیں۔ لیکن جس مُلک میں وہ چاہتے ہیں کہ عوام اُن کے غم کو سمجھیں اُسی مُلک میں اُن کے چھوٹے بھائی وزیراعظم ہیں، اُن کے سمدھی نائب وزیر اعظم ہیں، اُن کی بیٹی مُلک کے سب سے بڑے صوبے کی طاقتور وزیراعلیٰ ہیں پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ دلدار نہیں۔ اُن کا غم اُس بزرگ کا غم لگتا ہے جو چار شادیوں اور چودہ بچوں کے بعد پوتے پوتیوں سے شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ مُجھے سچا پیار نہیں ملا۔

پرانے بادشاہوں کو ہٹانے کیلئے قید کردیاجاتاتھا،حنیف

حنیف کہتے ہیں کہ پرانے بادشاہوں کو ہٹانے کے دو ہی طریقے تھے یا تختہِ دار یا قید خانہ، یا کبھی کبھی رحم دل بادشاہ اپنے سے پہلے والے بادشاہ کو مقدس مقامات کی زیارت کے لیے بھیج دیا کرتے تھے۔ پاکستان بادشاہت نہیں۔ پاکستان کے موجودہ حکمران نواز شریف کو اپنا اصلی باپ بھی مانتے ہیں، سیاسی بھی، روحانی بھی۔ اپنی جلاوطنی کے دنوں میں نواز شریف مقدس مقامات میں خوب عبادات کر چُکے ہیں۔ جب چاہیں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر عوام کے ساتھ اپنا وژن، اپنے غم بھی بیان کر سکتے ہیں۔ جب دل کرے کسی منصوبے کے افتتاح کے لیے فیتہ کاٹنے یا اپنی بیٹی کا راج دیکھنے کے لیے بھی پہنچ سکتے ہیں۔

نوازشریف کواب روحانی حکمران مان لیاہے،تجزیہ کار

محمد حنیف کہتےنہیں کہ اب کیا ہی اچھا ہو کہ میاں صاحب اُس مُلک کے دورے پر نکلیں جس نے اُنھیں تین بار وزیراعظم مُنتخب کیا، قید بھی کیا، دل بھی توڑا جلاوطن بھی کیا لیکن بالاخر اُن کو روحانی حکمران مان لیا۔ چونکہ اُن کے پاس فی الحال کوئی سرکاری عہدہ نہیں تو وہ جس سے چاہیں مل سکتے ہیں۔ ان کا غم تو ہم سُنتے آئے ہیں، وہ اور کچھ نہیں تو اپنی رعایا کا غم سُننے ہی نکل پڑیں، کبھی کسی بلوچ خاندان کے احتجاجی کیمپ میں جا کر بیٹھ جائیں، کبھی جا کر ماہ رنگ بلوچ کو تسلّی دیں کہ ریاست نے میرے ساتھ بھی ظلم کیا تھا، میں نے اپنے لیے انصاف کی جنگ لڑی، اب میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ کبھی منظور پشتین کو مشورہ دیں کہ ہاں کبھی کبھی عسکری اداروں کے خلاف سخت زبان بولنی پڑتی ہے لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کے اُن کے ساتھ آنکھ مچولی میں دو قدم آگے کیسے رہا جاتا ہے۔ لیکن ہم سب جاتنے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ عوام کے ساتھ وہ صرف اپنا غم بانٹنا چاہتے ہیں اور اُداس دُھنوں میں اپنے مرنے اور جینے کا گیت گانا چاہتے ہیں۔

Back to top button