بلوچ قوم پرستوں نے بلوچ عوام کی زندگی جہنم کیسے بنا دی؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش دھماکے میں درجنوں فوجی جوانوں کی شہادت نے وفاقی حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے سخت ترین قوانین بنانے اور نافذ کرنے کا جواز فراہم کر دیا ہے۔ لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ آگے چل کر یہی قوانین دہشت گردوں کے علاوہ سویلینز اور حکومت کے سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اس خود کش دھماکے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔ لیکن سینہ پھلا کر اس خونی واردات کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کو یہ بات ہرگز سمجھ نہیں آئے گی کہ حالیہ چند مہینوں سے اپنے ’احساسِ محرومی‘ کو اندھی نفرت میں بدلنے کے بعد دہشت گردی کے جس چلن کا انھوں نے انتخاب کیا ہے کہ وہ ریاست کو جھکانے کے بجائے مزید سخت گیر اقدامات کرنے کے جواز فراہم کررہا ہے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ’اپنے حقوق‘ کے لیے جدوجہد کرنے والے گروہوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ان کی مشکلات معاشرے کے وسیع تر حلقے اور خاص طورپر وہ گروہ جو ریاستی پالیسیاں تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ہمدردی کے احساس کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔ لیکن روزگار کے لیے بلوچستان جانے والے غریب مزدوروں کا بسوں سے اتار کر وحشیانہ قتل اپنے ’حقوق‘ کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو مظلوم کے بجائے ظالم بنا کر پیش کرتا ہے۔ معاملہ یہ صورت اختیار کر لے تو ریاست اپنے ’شہریوں‘ کے جان ومال کے تحفظ کے نام پر کسی بھی انتہا تک جانے کو ڈٹ جاتی ہے۔ لہٰذا آنے والے دنوں میں بلوچ نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ ’مسنگ پرسنز‘ میں شمار ہو سکتی ہے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش دھماکے سے قبل ہی پارلیمان سے تقاضا ہو رہا تھا کہ وہ ریاست کے اداروں کو ایسے افراد کم از کم 3 ماہ تک گرفتار کرنے کا حق فراہم کر دے جو دہشت گردوں کے ممکنہ سہولت کار ہو سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں سے فقط مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام نے اس کے خلاف دہائی مچائی۔ انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے والی تنظیمیں پہلے ہی ’غیر ملکی سرمایہ پر چلائی این جی اوز‘ ٹھہرائی جا چکی ہیں۔ ان کا اثر و رسوخ حالیہ برسوں میں کمزور سے کمزور تر ہوا ہے۔ ایسے میں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش کش دھماکہ حکومت کو دہشت گردی کے خلاف نئے اور سخت قوانین نافذ کرنے کا جواز فراہم کرے گا جو آگے چل کر سویلینز اور حکومت کے سیاسی مخالفین کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ خودکش دھماکے دہشت گردی کا ایک معروف حربہ ہیں۔ اسے کئی برسوں تک سری لنکا کے تامل انتہا پسندوں نے کلیدی ہتھیار کی طرح استعمال کیا۔ مذکورہ حربے نے مگر سری لنکا کی ریاست کو جھکانے کے بجائے وہاں کی سنہالی اکثریت کو انتہا پسند بنادیا۔ انھوں نے ایسے سیاسی رہنماﺅں کو کامل اختیار عطا کیا جو تامل نسل وزبان ہی ختم کرنے کا عہد باندھتے تھے۔ تمل انتہا پسندی کا اس کے طفیل خاتمہ تو ہوگیا مگر اسے ختم کرتے ہوئے سری لنکا کی ریاست بھی دیوالیہ ہوگئی۔ آج سنہالی اور تمل افرادروز کی روٹی روز کمانے کی فکر میں یکجا ہو چکے ہیں۔ بلوچ انتہا پسند فی الوقت اپنے ہی معاشرے اور اس کی معاشی زندگی کے لیے’خود کش‘ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر مسافر ٹرینوں اور بسوں پر حملے جاری رہے تو بلوچستان میں دیگر علاقوں سے ہنرمند آنا ترک کر دیں گے۔ ہنر مند اور دیہاڑی دار مزدوروں کی عدم موجودگی سے بلوچ علاقوں میں متوسط طبقہ کمزور سے کمزور تر ہو گا۔ درمیانے درجے کے کاروباری افراد بھی معدوم ہو جائیں گے۔ ’عظیم تر معاشی منصوبوں‘ کو مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ریاست اپنی بھرپور قوت اور وسائل کے استعمال سے انھیں جاری رکھنے کے لیے محفوظ سرنگیں کی تشکیل پر توجہ مرکوز رکھے گی اور بتدریج بلوچ معاشی دھارے سے کاملاً جدا ہو سکتے ہیں۔ نصرت جاوید کہتے ہیں دہائیوں سے ریاست اور انتہا پسندوں کے مابین جھگڑوں کے دائروں میں مقید ہوئے بلوچ عوام کی بے پناہ اکثریت رحم کی مستحق ہے۔ لیکن ان کے ’اپنے‘ ہی اب انھیں چین سے زندہ رہنے نہیں دے رہے۔

Back to top button