278 لاشوں کے جھوٹے پروپیگنڈا نے PTI کی رہی سہی ساکھ کیسے اجاڑی؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ عمران خان کی اسلام آباد میں احتجاج کی فائنل کال کی ناکامی کو 278 لاشوں کے جھوٹے پراپیگنڈے سے کور کرنے کی کوشش سے تحریک انصاف کی رہی سہی ساکھ کا بھی جنازہ نکل گیا ہے۔

اپنی تازہ تحریر میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت نے اسلام اباد سے جوتیاں اٹھا کر فرار ہونے کے بعد اپنی شرمندگی مٹانے کیلئے سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ پر مبنی یہ پروپگینڈا شروع کر دیا کہ سینکڑوں مظاہرین کو شہید کر دیا گیا ہے، کسی نے کہا کہ 278 ورکرز کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا، کسی نے مرنے والوں کی تعداد 150 بتائی، کسی نے 50 افراد کے شہید ہونے کا دعویٰ کیا، لیکن پھر حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ جن لوگوں کی جان گئی ان میں پانچ رینجرز اور پولیس کے اہلکار تھے اور پانچ پی ٹی آئی کے ورکرز تھے۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اپنی سیاست کا ازسرنو جائزہ لے۔ اگر وہ سوشل میڈیا اور ملکبسے باہر بیٹھے شرپسندوں اور یوٹیوبرز کے کہنے پر چلتی رہی تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اب توکچھ سبق سیکھنا چاہیے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔جب سے تحریک انصاف کی حکومت گئی ہے تب سے اب تک جو بھی حکمت عملی اپنائی گئی اور پالیسی لائی گئی وہ پی ٹی آئی پر ہی الٹی پڑی۔ اُس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سیاسی جماعت میں فیصلہ سازی میں مشاورت کی بجائے عمران خان کا فیصلہ چلتا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عمران پنے ساتھیوں کے مشوروں سے زیادہ تحریک انصاف کے اُس سوشل میڈیا اور یوٹیوبرزکی بات سنتے ہیں جنہوں نے انہیں موجودہ حالات تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

سینیئر صحافی عمران خان کی ماضی کی غلطیوں کا احاطہ کرتے ہوئے یاد دلاتے ہیں کہ جب حکومت جانے لگی تو پارٹی رہنمائوں کی اکثریت کے مشورے کے باوجود عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا فیصلہ کر دیا۔ بعد میں ایک بار پھر پارٹی رہنمائوں کی مشاورت کے برعکس پنجاب اور خیبر پختون خوا میں موصوف نے اپنی ہی حکومتیں ختم کر دیں۔ اس کے بعد انہوں نے فوج اور آرمی چیف کے خلاف پارٹی رہنمائوں کے منع کرنے کے باوجود بیانیہ بنایا اور پھر ٹکرائو کی ایسی سیاست پر چل پڑے کہ 9 مئی 2023 کا سانحہ ہو گیا۔

انصار عباسی کے بقول عمران خان کو خود بھی احساس تھا، اور انکے دوسرے ساتھی بھی سمجھاتے رہے کہ اب انہیں رک جانا چاہیے لیکن انہوں نے اپنے سوشل میڈیا ایڈوائیزرز کے اشتعال دلانے پر فوج سے ٹکرائو کی سیاست جاری رکھی۔ لوگوں نے انہیں سمجھایا کہ پارٹی کو سیاستدانوں سے بات چیت کرنی چاہیے لیکن کہا گیا کہ مجھے بات چیت بھی اُن سے کرنی ہے جن سے ٹکر لی جا رہی ہے۔ یوں نہ تو عمران کو سیاسی طور پر کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی وہ خود کو جیل سے نکالنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ عمران خان جیتا ہوا الیکشن بھی ہار گئے۔ اس کے باوجود پالیسی ٹکرائو والی ہی رہی۔ اس دوران ساتھیوں نے پھر سمجھایا کہ فوج سے لڑائی ختم کریں، اپنے سوشل میڈیا کو کنٹرول کریں، باہر بیٹھے ہوئے شہباز گلوں جیسے یوٹیوبرز کی مت سنیں، لیکن اسکے باوجود انکا رویہ ٹکرائو والا ہی رہا۔ احتجاج، احتجاج اور احتجاج، اس کے علاوہ کوئی پالیسی نہیں۔ بار بار یہی کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کا سمندر نکلے اور فوج کو مجبور کر دے کہ وہ وہی سب کچھ مانے جو عمران چاہتے ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر انقلاب لانے والے گھروں سے نکلنے کیلئے تیار نہیں اور اس وجہ سے کوئی احتجاج کامیاب نہیں ہوتا۔ احتجاج کرنے سے پہلے دھمکیاں دی جاتی ہیں اور گزشتہ چند مہینوں سے تو بار بار خیبر پختون خوا جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں سے پنجاب اور اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں تشدد پر ختم ہوتا ہے۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ نومبر میں اسلام آباد کی طرف مارچ کی تاریخ کا اعلان عمران خان نے بغیر کسی رہنما سے مشاورت کے کیا۔ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کا کہنا تھا کہ 24 نومبر کی تاریخ بہت جلدی میں دے دی گئی ہے جس سے ٹکرائو بڑھے گا۔ گنڈاپور بھی اس مارچ کے حق میں نہیں تھے، بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، اسد قیصر، شبلی فراز بھی اس کے حق میں نہ تھے۔ جب اسلام ہائی کورٹ نے بھی اس مارچ کی اجازت نہ دی تو پھر سلمان اکرم راجہ کی بھی یہ رائے تھی کہ یہ مارچ نہیں ہونا چاہیے۔ عمران خان سے جیل میں ملاقات کر کے سمجھانے کی کوشش کی گئی۔

190 ملین پاؤنڈ کیس : بشریٰ بی بی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار

دوسری طرف پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی مارچ کے خلاف رائے ہونے کے باوجود اُسے خود سے کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہ تھا۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اور باہر بیٹھے یوٹیوبرز اور رہنما اس مارچ کے نتیجے میں ممکنہ انقلاب کی نوید سناتے رہے۔ پارٹی کے اندر یہ کوشش بھی ہوئی کہ بشریٰ بی بی سے فیصلہ کروا لیا جائے لیکن اُنہوں نے ضد باندھ لی کہ مارچ ہو گا اور ڈی چوک ہی جانا ہے۔ اس دوران علی امین گنڈاپور دور روز عمران خان سے ملتے رہے اور اُنہیں سمجھایا کہ سنگجانی پر مارچ کو روک دیا جائے اور دھرنا دیا جائے۔ اس بار عمران خان تو مان گئے لیکن بشریٰ بی بی نہ مانیں اور یوں ایک بار پھر تحریک انصاف کی سیاسی چال نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ اسے بہت بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب اسی ناکامی کو چھپانے کے لیے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی جانب سے 278 لاشوں کا پروپگینڈا کیا جا رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ تحریک انصاف اپنی سیاست کا ازسرنو جائزہ لے۔اگروہ سوشل میڈیا اور باہر بیٹھے شرپسند رہنمائوں اور یوٹیوبرز کے کہنے پر چلتی رہی تو شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔

Back to top button